غزل

یہ تحریر 1244 مرتبہ دیکھی گئی

O

نگاہ سے نہیں ہٹتے ترے در و دیوار
یہ میرے ساتھ کہاں چل پڑے در و دیوار

نہ مُنہ سے بول سکیں کچھ نہ سر سے کھیل سکیں
ہمیں گواہ بھی کیسے ملے، در و دیوار

پھر اُس دیارِ محبّت میں جاکے لوٹ آئے
نہ تھے مکین تو کیا دیکھتے در و دیوار

اُسی کی لو سے فروزاں تھے خال و خد اِن کے
بُجھا چراغ تو گُل ہو گئے در و دیوار


زمیں لرزنے لگی روشنی سے ٹکرا کر
ستارہ آکے گرا، بج اُٹھے در و دیوار

کہاں سے مل گئی انجام کی خبر اِن کو
کہ رہ گئے ہیں کھڑے کے کھڑے در و دیوار