غزل

یہ تحریر 1290 مرتبہ دیکھی گئی

یوں تخیل میں مرے ہے اک نگر سویا ہوا
بیج میں ہو جس طرح کوئی شجر سویا ہوا


کیا فسوں ہے غفلت آبادِ جہاں کا دوستو
ہر کوئی رہتا ہے اس میں عمر بھر سویا ہوا


دن چڑھے آنکھیں مندی ہیں عقل و صبر و ہوش کی
کن ہواؤں میں پڑا ہے گھر کا گھر سویا ہوا


سر بسر گم ہے یہاں گردِ تغافل میں بہار
گل حجاب رنگ میں ہے بے خبر سویا ہوا


یہ غزل ہم نے کہی ہے نیند میں شاید کہیں
حرف حرف اس کا ہے چہرہ ڈھانپ کر سویا ہوا