یوں تخیل میں مرے ہے اک نگر سویا ہوا
بیج میں ہو جس طرح کوئی شجر سویا ہوا
کیا فسوں ہے غفلت آبادِ جہاں کا دوستو
ہر کوئی رہتا ہے اس میں عمر بھر سویا ہوا
دن چڑھے آنکھیں مندی ہیں عقل و صبر و ہوش کی
کن ہواؤں میں پڑا ہے گھر کا گھر سویا ہوا
سر بسر گم ہے یہاں گردِ تغافل میں بہار
گل حجاب رنگ میں ہے بے خبر سویا ہوا
یہ غزل ہم نے کہی ہے نیند میں شاید کہیں
حرف حرف اس کا ہے چہرہ ڈھانپ کر سویا ہوا