غزل

یہ تحریر 1300 مرتبہ دیکھی گئی

اے زباں اپنے کہے کو بھی نہ اپنا فن سمجھ
غیب سے سُن کر سناتی جا، پرایا دھن سمجھ

یا مثالِ تیشہ شق کردے دلِ کہسار کو
یا رگِ ہر سنگ کو، اپنی رگِ گردن سمجھ

بھول کر بھی اپنی محفل میں مجھے شامل نہ جان
تُو مجھے اِک روحِ پارینہ کا پیراہن سمجھ

کیسے سمجھاؤں وہ چشمِ سُرمہ سا کیا چیز ہے
ابر کی چادر سمجھ یا شام کا دامن سمجھ


سخت تنہا ہو کے سوئے خانہء خورشید چل
اپنے سائے کو بھی تو اِس راہ میں دشمن سمجھ