اک ہجر کی دھوپ میں جلا ہوں
اب یاد کے سائے میں پڑا ہوں
اک چاند جھکا ہوا ہے مجھ پر
میں اپنی زمین سے جدا ہوں
اک رات سے کچھ ستارے لے کر
اک خواب کی سمت چل رہا ہوں
ہر موڑ پہ اپنے راستے میں
دیوارِ انا کو دیکھتا ہوں
ٹوٹا ہوا شاخِ دل سے اپنی
اب اپنی جڑوں کو ڈھونڈتا ہوں
کب اپنے لئے میں کیا نہیں تھا
اب اوروں سے پوچھتا ہوں کیا ہوں
اک پھول سا کھل رہا ہے مجھ میں
خوشبو سا لباس پہنتا ہوں
پلکوں پہ کوئی خواب تو نہیں ہے
بس اپنی سحر سے ڈر گیا ہوں
پہنچا ہوں میں اک سفر سے گھر تک
اک اور سفر پہ چل پڑا ہوں