O
یہ نہیں ہے کہ اِسی راہ پہ چلنا ہے مجھے
اب کسی اور جہت میں بھی نکلنا ہے مجھے
دل کی رفتار سِن و سال کی پابند نہیں
ابھی بڑھنا ہے مجھے، پھولنا پھلنا ہے مجھے
صورتِ شاخ ہوں آئینِ نمو سے مجبور
رُت جو بدلی ہے تو پوشاک، بدلنا ہے مجھے
یونہی رہنا ہے فنا اور بقا کے مابین
اِسی آندھی، اِسی قندیل میں جلنا ہے مجھے
جس پہ گرنا ہے وہ دروازہ بس اب دُور نہیں
یہی دو چار قدم اور سنبھلنا ہے مجھے