گزارنی تھی عارضی امان میں گزار دی
یہ زندگی کرائے کے مکان میں گزار دی
جو گردشیں نصیب تھیں وہ آج تک نہیں ٹلیں
حصار سے فرار تک اڑان میں گزار دی
تو یوں ہوا کہ زندگی خراج مانگنے لگی
تو یوں ہوا کہ زندگی لگان میں گزار دی
میں دوستوں نہ دشمنوں کے کام آ سکا کہیں
یہ تیر جیسی زندگی کمان میں گزار دی
غزل
یہ تحریر 424 مرتبہ دیکھی گئی