غزل

یہ تحریر 1231 مرتبہ دیکھی گئی

سرشاریاں بھی کھو گئیں اور بے خودی چلی گئی

اس زندگی کا کیا کریں زندہ دلی چلی گئی

تہذیبِ وقت نے مجھے یوں تو فعال کر دیا

لیکن میں کیا کروں مری آوارگی چلی گئی

خلقِ خدا میں بانٹنے سے بندشیں بھی کھل گئیں

دریا دلی عطا ہوئی تو مفلسی چلی گئی

جتنی تھیں خوش مزاجیاں، صدقہ تھیں اک ملال کا

اب کس طرح ہنسوں کہ وہ غم کی گھڑی چلی گئی

یوں خود کو ہار ہار کے کیا جیتنے چلا تھا میں

میں دشمنوں کا ہو گیا تو دوستی چلی گئی

مصرعے کی خوبصورتی ناشط خدا کی دین ہے

زعمِ سخن جو ہو گیا تو شاعری چلی گئی

کامران ناشط کی دیگر تحریریں