غزل

یہ تحریر 1784 مرتبہ دیکھی گئی

خبر نہیں کہ سنی تھی کدھر حکایتِ نَے
ہمارے ساتھ رہی عمر بھر حکایتِ نَے
وہ چند حرفِ شکایت صدی صدی پھیلے
کہا تھا کس نے کہ ہے مختصر حکایتِ نَے
سنے تھے جتنے فسانے وہ ذہن سے اُترے
مگر وہ قصہِ فرقت، مگر حکایتِ نَے
وہ جاگتی ہوئی روحوں کا سوز و سازِ دروں
دعائے نیم شبی کا سفر، حکایتِ نَے
صدائیں آتی ہیں بانسوں کے جنگلوں سے ابھی
سنا رہی ہے ہوائے سحر حکایتِ نَے