غزل

یہ تحریر 638 مرتبہ دیکھی گئی

o

میں بجھ رہا تھا مجھے تاب دار کس نے کیا
یہ کام تیرے سوا چشمِ یار کس نے کیا

مرے نفس میں بھی تو پیش و پس میں بھی تو ہی
یہ تیرا عکس مرے آر پار کس نے کیا

مثالِ موجِ صبا میں نے چھو لیا تھا تجھے
نہ جانے تجھ کو گلِ نو بہار کس نے کیا

وہ حسن تھا کہ مجھے جرأت کلام نہ تھی
تمھارے ساتھ وہ قول و قرار کس نے کیا

وہ تُو نہیں تھا اگر تو پسِ نقاب تھا کون
مرے وجود کو گرد و غبار کس نے کیا

تو اس قدر تھا تجھے دل میں رکھ لیا میں نے
میں ایک ہی تھا مجھے بے شمار کس نے کیا

یہ میں ہی تھا کہ جِسے شوقِ سرفروشی تھا
تری نگاہ کو خنجر کی دھار کس نے کیا

چلا تھا گھر سے تو میں سیرِ دو جہاں کے لیے
مری نگاہ کو اختر شمار کس نے کیا

مجھے مجال کہاں تھی کہ تجھ کو لکھ سکتا
پتا نہیں مجھے معجز نگار کس نے کیا

میں خوبرو تو نہ تھا پھر بھی بھا گیا تھا تجھے
دل و نگہ کو تری سازگار کس نے کیا