غزل

یہ تحریر 148 مرتبہ دیکھی گئی

o

ہوا ہے اور مری کھڑکی کا آدھا در کھلا ہے
نگاہِ نیم وا میں دھوپ کا منظر کھلا ہے

مری خواہش تو اب پہلو بدل کر سو گئی ہے
مرے آگے سنہرے رنگ کا زیور کھلا ہے

مری وارفتگی آخر وہیں لے آئی مجھ کو
کہ سارے شہر میں اک میکدے کا در کھلا ہے

کوئی کیا خاک سمجھے چیستانِ زندگی کو
سبھی دروازے اندر وا ہیں اک باہر کھلا ہے