غزل

یہ تحریر 581 مرتبہ دیکھی گئی

o

شہر خاموش تھا گلیوں میں ہوا ٹھیری تھی
شب کی دہلیز کے اس پار قضا ٹھیری تھی

دل میں کچھ بھی تو نہ تھا اذنِ خموشی کے سوا
منجمد ہونٹوں پہ ٹھٹھری سی دعا ٹھیری تھی

ایک ہی بات تھی جو بھول نہیں پائی تھی
ایک صورت تھی کوئی دل میں جو آ ٹھیری تھی

رنگ تحلیل ہوے جاتے تھے خوشبو کی طرح
اور خوشبو تھی کہ پھولوں سے جدا ٹھیری تھی

ادھ کھلی آنکھوں میں خوابوں کا دُھواں پیچاں تھا
صحن میں بس ترے قدموں کی صدا ٹھیری تھی

ہوگئی عمر مجھے خوابوں کے ریزے چنتے
جانے کس ریزے میں وہ صبحِ صدا ٹھیری تھی