غزل

یہ تحریر 665 مرتبہ دیکھی گئی

o

ہر گلی میں داستانِ پُرالم ٹھیری ہوئی تھی
شہر کی دہلیز پر شامِ ستم ٹھیری ہوئی تھی

شب کے جنگل سے گزر کر میں وہاں پہنچا تو دیکھا
دشتِ وحشت کے کنارے صبحِ غم ٹھیری ہوئی تھی

انبساطِ درد میں گھر سے چلا میں مے کدے کو
میرے آگے اک رہِ پُرپیچ و خم ٹھیری ہوئی تھی

شہر کے باہر جو پہنچا تو وہیں پر رک گیا میں
سامنے میرے کسی کی چشم نم ٹھیری ہوئی تھی

میری تنہائی مرے پہلو میں لیٹی سو رہی تھی
اور دل میں ایک رنجش بیش و کم ٹھیری ہوئی تھی