غزل

یہ تحریر 630 مرتبہ دیکھی گئی

تھا درد کا درماں، نہ کسی بات کا حل تھا
کیا زیست کی بنیاد میں خود کوئی خلل تھا

ظاہر پہ نہ جا، کوہکن و قیس تھے ہم بھی
باطن میں وہی سلسلہ دشت و جبل تھا

ہر چند کہ سو جاں پہ گزر جائے خرابی
دل کا اُسی آئینِ شکستہ پہ عمل تھا

خاموش دلِ زار جہانِ گُزراں میں
جو کچھ کہ کہا اُس کے نہ کہنے کا محل تھا

اُترا ہی نہیں دل پہ کوئی آیہ مُحکم
ہر سانس میں اک مَخمصہ ردّوبدل تھا

کیا راز ہے تاثیرِ سُخن کا تری خورشید
نے رنگ قصیدے کا نہ اندازِ غزل تھا