غزل

یہ تحریر 847 مرتبہ دیکھی گئی

حاصلِ وصل ہے فراق پھر بھی ابھی نہ جایئے
آپ مرے چمن میں ہیں آب و ہوا بنے ہوے

ایک طرف گل و سمن اک طرف اُن کا پیرہن
ہم بھی گئے تھے ساتھ ساتھ موجِ صبا بنے ہوے

عالمِ بے خودی میں رات چاند سے چھوگیا تھا ہاتھ
خون کو دیکھتا کوئی، موجِ طلا بنے ہوے

دل کی پرکھ سے کیجیے اہلِ جنوں کا امتیاز
اہلِ ہوس بھی ہیں یہاں آبلہ پا بنے ہوے

دیکھ کے روئے آفتاب کشمکشِ غروب میں
آج کنارِ جوئے آب، آپ ہیں کیا بنے ہوے