غزل

یہ تحریر 758 مرتبہ دیکھی گئی

O

جانے کس کے کھوج میں پھرتا ہے بے کل آدمی
آدمیّت سے گریزاں ہے مسلسل آدمی

خیر و شر کے جس جھمیلے پر بھی دوڑائیں نگاہ
سب سے آخر آدمی اور سب سے اوّل آدمی

مضطرب ہیں روز و شب تکمیل پانے کے لیے
کتنے اچھے آدمی ہیں نامکمّل آدمی

عقل والوں پر کہاں ہوتا ہے خوابوں کا نزول
آدمی کی لاج تو رکھتا ہے پاگل آدمی

وہ مہک مت ڈھونڈ اِس دورِ جنوں رفتار میں
وہ غزل وہ شعر تو کہتا تھا پیدل آدمی

اب تو ہے دیوِ مشینی دوشِ دوراں پر سوار
اور اُس کی باگ میں چلتا ہے کوتل آدمی

قُفلِ ابجد کی طرح اِک سرِّ ناپیدا کلید
دوستو خُورشید بھی ہے کیا مقفّل آدمی