غزل

یہ تحریر 826 مرتبہ دیکھی گئی

اُٹھ پائے تو اِس اُفتاد نگر سے نکلیں گے
لامعلوم ہیں ہم معلوم کے ڈر سے نکلیں گے

پُھوٹ بَہیں گے آبلے دِل کے یُوں بھی آخرِ ہجر
آنُسو ہیں آخر کو دیدہئ تر سے نکلیں گے

کھو جائیں گے خوابوں کے اِک اور ہی منظر میں
جب بھی ہم خوابوں کے اِس منظر سے نکلیں گے

خاک نَگر سے کوئی کِسی بھی رستے نکلے، ہم
جس پہ کوئی گریاں ہو گا اُس در سے نکلیں گے

دیکھنا یہ بھی منظر، اِک آواز کے آنے پر
روکنے والے روکیں گے ہم گھر سے نکلیں گے

اور نہ کچھُ نکلے گا دفترِ خواب سے داورِ حشَر
کچھُ نالے کچھُ گیت دلِ کافَر سے نکلیں گے