غزل
اشفاق عامر
جو بھی کہنا ہو ان آنکھوں میں نظر آتا ہے
اس کو پیغام رسانی کا ہنر آتا ہے
عکس بنتا ہے کسی یاد کا آئینے میں
روز اک خواب میں وہ مجھ کو نظر آتا ہے
تو کبھی جھانکے ان آنکھوں میں تو کھل اٹھے گا
چاند اس جھیل میں اترے تو سنور آتا ہے
راہ ہموار پہ آ جاتی ہے مشکل کوئی
جیسے اک لہر کے آخر میں بھنور آتا ہے
دل کے کمرے میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
جانے کیا سوچ کے تو روز ادھر آتا ہے
ایک جرعہ بھی ان آنکھوں سے پیا ہو جس نے
ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے وہ گھر آتا ہے
دور تک جاتی ہے ان لفظوں کی خوشبو عامر
شاخ احساس پہ جس وقت ثمر آتا ہے