غزل

یہ تحریر 1923 مرتبہ دیکھی گئی

غزل

اشفاق عامر

جو بھی کہنا ہو ان آنکھوں میں نظر آتا ہے

اس کو پیغام رسانی کا ہنر آتا ہے

عکس بنتا ہے کسی یاد کا آئینے میں

روز اک خواب میں وہ مجھ کو نظر آتا ہے

تو کبھی جھانکے ان آنکھوں میں تو کھل اٹھے گا

چاند اس جھیل میں اترے تو سنور آتا ہے

راہ ہموار پہ آ جاتی ہے مشکل کوئی

جیسے اک لہر کے آخر میں بھنور آتا ہے

دل کے کمرے میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

جانے کیا سوچ کے تو روز ادھر آتا ہے

ایک جرعہ بھی ان آنکھوں سے پیا ہو جس نے

ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے وہ گھر آتا ہے

دور تک جاتی ہے ان لفظوں کی خوشبو عامر

شاخ احساس پہ جس وقت ثمر آتا ہے