غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے

یہ تحریر 1190 مرتبہ دیکھی گئی

غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے

(ناصر عباس نیر کے نام)

جب میں وطن آتا ہوں تو پروفیسر ناصر عباس نیر کہتے ہیں کہ آپ عظیم آباد کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ یہ سوال عظیم آباد سے بہت دور ایک ایسی ادبی شخصیت کا ہے جس نے بیدل عظیم آبادی پر ایک نہایت فکرانگیز مضمون بیدل اور خاموشی کی جمالیات لکھا ہے۔ اس مضمون کو پڑھ کر میں نے اپنے عزیزوں سے کہا تھا کہ ایک مدت کے بعد بیدل پر ایسا مضمون لکھا گیا جس میں فکری اور نظری طور پر تازگی بھی ہے اور گہرائی بھی۔ یہ تازگی اور گہرائی بیدل کی شاعری نے پیدا کی ہے لیکن ضمیرعلی بدایونی کے بعد اردو تنقید نے بیدل کو اس طرح دریافت نہیں کیا۔ فارسی کے عالموں کا مسئلہ بیدل کو نئے ماحول اور نئی دنیا میں ہم عصر، ہم زبان اور ہم خیال ثابت کرنے سے زیادہ اس کی کلاسیکیت اور تاریخیت کو ثابت کرتا ہے۔ بات تو عظیم آباد کو محسوس کرنے کی تھی اور میں کہاں نکل آیا، لیکن یہ راہ  بھی تو ناصر عباس نیر ہی نے دکھائی ہے۔ عظیم آباد کے بارے میں میں کیا سوچتا ہوں اور کیا محسوس کرتا ہوں شاید ٹھیک ٹھیک اس بارے میں کچھ نہ بتا سکوں۔ناصر عباس نیر کا اشارہ اٹھارہویں صدی، انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے نصف اول اور اس کے کچھ بعد کے عظیم آبا دکی ادبی روایت کی طرف تھا۔ بیدل سے کلیم عاجز تک شعرا و ادبا کا ایک سلسلہ سا ہے۔ چند شخصیات کو دنیا نے زیادہ جانا اور پہچانا۔ ایک بڑی تعداد ان ادیبوں کی ہے جنھوں نے عظیم آباد میں اردو کی شعری و ادبی روایت کو استحکام بخشنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ شورش عظیم آبادی کا تذکرہ ’تذکرہ شورش‘ پڑھیے تو عظیم آباد اور اس کے مضافات کے اتنے شعرا ہیں کہ اس کی مثال مشکل ہی سے کسی اور خطے میں ملے گی۔ شورش نے بعض شعرا کو صاحب دیوان بتایا ہے اور اشعار بطور انتخاب درج کیے ہیں۔ وہ کلاسیکی اردو شاعری کا ایک نمونہ بھی ہیں۔ اگر شورش کا تذکرہ وجود میں نہ آتا  تو عظیم آباد کی شعری روایت کی اہم کڑیاں ٹوٹ ہی جاتیں۔ شورش کا دیوان بھی دستیاب نہیں ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ شورش نے اپنا کلام تذکرہ میں شامل کردیا ہے۔ ’تذکرہ شورش‘ میں اتنا زیادہ کلام کسی اور کا نہیں ہے۔ ممکن ہے شورش کی یہ آگہی ہو کہ دیوان کا پتہ نہیں کیا حشر ہوگا۔ انتخاب شامل کردیا جائے۔ میں نے شورش کے کلام کی روشنی میں اردو کی کلاسیکی اور عظیم آباد کی شعری روایت پر ایک مختصر سا نوٹ لکھا ہے، کبھی شائع ہوجائے گا۔ تو جب میں عظیم آباد کے بارے میں کچھ سوچتا ہوں تو تذکرۂ شورش کا خیال آتا ہے۔ اس فارسی تذکرہ کا اردو ترجمہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع ہوگیا ہے۔ ایک مختصر سی تحریر پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی تذکرہ اور ترجمے سے متعلق شامل ہے۔ تذکرہ شورش کو محمود الٰہی نے مرتب کیا تھا۔ اس تذکرہ کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ریختہ کے سلسلے میں تذکرہ نگار نے چند اہم باتیں لکھی ہیں۔ عظیم آباد کے اتنے شعرا سے ہماری شناسائی ہوجاتی ہے کہ جیسے کسی شعری محفل بلکہ شعری کائنات میں ہم داخل ہورہے ہیں۔

اس تذکرہ میں عظیم آبادی شعرا کا کوئی تذکرہ ’آب حیات‘ کی طرح نہیں لکھا جاسکا۔ محمد حسین آزاد ہر دور کے بارے میں جو تمہید باندھتے ہیں وہ خیال آرائی اور انشاپردازی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ کاش کسی نے اس سے ملتی جلتی زبان میں بھی عظیم آباد کے شعرا کا تذکرہ لکھا ہوتا۔ تذکرہ شورش کے اشعار سے عظیم آباد کی شعری زبان کا اختصاص سامنے آجاتا ہے۔ بھاگو ہو، جاؤ ہو، جانے ہے یہ زبان تو میر اور ان کے معاصرین سے مخصوص سمجھی جاتی ہے مگر عجیب قصہ ہے کہ یہ زبان آج بھی عظیم آباد اور اس کے مضافات کی عام بول چال میں شامل ہے۔ ذکر میر میں میر نے میر جعفر عظیم آبادی سے اپنی ملاقات اور ان سے فارسی زبان سیکھنے کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ میں ایک دن سربازار، ایک کتاب کا جزو ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا، میر جعفر نامی ایک جوان اُدھر سے گزرے ان کی نظر مجھ پر پڑی تو تشریف لائے اور ذرا توقف کرکے کہنے لگے : ’’اے عزیز معلوم ہوتا ہے تمھیں پڑھنے کا شوق ہے، میں بھی کتاب کا کیڑا ہوں، لیکن کوئی مخاطب نہیں ملتا، اگر تمھیں شوق ہو تو کبھی کبھی آجایا کروں‘‘ میں نے کہا: ’’میں کسی خدمت کی استطاعت تو نہیں رکھتا اگر محض خدا واسطے آپ یہ زحمت گوارا کریں تو عین بندہ نوازی ہے۔‘‘ کہنے لگے ’’اتنا ہے کہ جب تک تھوڑا سا ناشتا نہ مل جائے میں گھر سے قدم نہیں نکالتا‘‘، ’’میں نے کہا: ’’(یہ مشکل) خدائے کریم آسان کردے گا، اگرچہ میرے پاس بھی کچھ نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے اس نسخۂ پریشاں کے پاورق کو اگلے سرصفحوں کے مطابق کرکے مجھے دیا اور چلے گئے۔ اس دن سے اکثر اس آدم، فرشتہ سیرت انسان سے ملاقات ہوتی وہ نہایت مہربانی سے مجھے پڑھاتے، یعنی اپنا دماغ کھپاتے اور مجھے کچھ سکھاتے، میں بھی تا بہ مقدور ان کی خدمت کرتا یعنی جو کچھ میسر تھا ان کے لیے خر چ کرتا، ناگاہ ان کے وطن یعنی عظیم آباد سے ایک خط آیا اور وہ بادل ناخواستہ اُدھر چلے گئے۔‘‘(ترجمہ: نثار احمد فاروقی)

میر نے میر جعفر عظیم آبادی کے بعد سید سعادت علی کا ذکر کیا ہے، جن سے انھیں ریختہ میں شعر کہنے کی ترغیب ملی۔ نثار احمد فاروقی نے ’سید سعادت علی امروہوی‘ کے عنوان سے ان سے متعلق تفصیلات لکھ دی ہیں مگر میر جعفر عظیم آبادی کے تعلق سے کوئی اطلاع نہیں ملتی سوائے اس کے کہ میر نے ان سے فارسی پڑھی تھی اور انھیں اپنا استاد مانا ہے۔ عظیم آباد سے دہلی جانا اور دہلی سے پھر عظیم آباد آجانا آج کی زندگی کے تناظر میں کتنا آسان معلوم ہوتا ہے۔ عہد میر میں یہ سفر کن دشواریوں کے ساتھ طے پاتا ہوگا۔ راسخ عظیم آبادی میر سے ملنے لکھنؤ چلے گئے اور صرف ایک شعر پر میر نے اصلاح دی۔  میر سے اس  ملاقات کو راسخ نے بہت اہمیت دی ۔ دس بارہ ایسے اشعار ہیں جن میں راسخ نے میر کو اپنا استاد بتایا ہے۔ایک عظیم آبادی دہلی جاکر میر کو اپنا شاگرد بناتا ہے اور دوسرا عظیم آباد سے لکھنؤجاکر میر کو اپنا استاد بناتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ میرکے تعلق سے یہ اعزاز کسی اور شہر کو حاصل نہیں ہے۔ عظیم آباد کے تعلق سے میرا یہ احساس تاریخی بنیاد بھی رکھتا ہے مگر اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ادبی تاریخ کا ایک شخصی زاویے سے بھی مطالعہ کیا جائے تو تذکرہ شورش شعر کا تذکرہ ہی نہیں عظیم آباد کی شعری کائنات بھی ہے۔جن بڑے شعرا کو دنیا جانتی ہے ان کی بڑائی کی فکری، فنی اور تہذیبی بنیادیںان شعرا کے کلام میں موجود ہیں جنھیں دنیا نے فطری طور پر کم جانا۔ دو شعر پانچ شعر ، دس شعر ، شعروں کی یہ بکھری دنیا ایک معنی میں عظیم آباد کی کلاسیکی روایات کو وحدت کے طور پر پیش کرتی ہے۔  صورت حال یہ ہے کہ شعرا کے نام سے قاری سرسری گزر جاتا ہے۔ کون انھیں وہاں سے نکال کر اور چار شعروں کی روشنی میں ان کے محاسن کو بیان کرے گا۔ یہ عمل تو خاصا پریشان کن ہے مگر کیا کیجیے کسی علاقے یا شہر کی ادبی تاریخ کی تعمیر و تشکیل میں تمام شعرا کا حصہ ہوتا ہے۔ اسی لیے قاضی عبدالودود کسی ادبی تاریخ کے مطالعے میں انتخابی رویے کے خلاف تھے۔ انھوں نے عظیم آباد کے  جن شعرا کے دواوین مرتب کیے وہ بہتوں کی نظر میں اہم نہیں تھے۔ گیان چند جین کا تو یہی اعتراض تھا کہ اہم شعرا کے دیوان کی طرف قاضی صاحب نے توجہ نہیں کی۔ دیوان جوشش عظیم آبادی قاضی عبدالودود نے مرتب کیا۔ پاکٹ سائز میں دیوان جوشش 1940  میں انجمن ترقی اردو سے شائع ہوا۔ بعد کو کلیم الدین احمد نے بھی دیوان جوشش کو مرتب کیا۔ اب جوشش کا دیوان بھی کون پڑھے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی نہیں پڑھے گا۔ قاضی عبدالودود نے دیوان جوشش کے صفحات پر حاشیے لگائے ہیں، ان کی حیثیت تو متن پر متن بنانے جیسی ہے۔ متن کے اختلافات کا اندراج یا متن سے متعلق دیگر تفصیلات قاضی صاحب کی نظر میں متن سے باہر کی ادبی سرگرمیاں نہیں تھیں۔ ان حاشیو ںکو دیکھتا ہوں تو دماغ چکرا جاتا ہے۔ اردو میں ایک ایسا محقق بھی ہوا جس نے متن اور صاحب متن سے متعلق حوالوں کی یکجائی کو کوہ کنی جیسا عمل بنا دیا۔ لندن سے بیرسٹری کی ڈگری اور مغربی تناظر سے گہری شناسائی کے ساتھ اردو کو ایک ایسا محقق عظیم آباد کی سرزمین سے ملا تھا۔ جوشش کی تقدیر دیکھیے کہ ان کے کلام پر حاشیہ بھی لگایاتو کسی معیاری اورمشکلمحقق نے۔ اٹھارہویں صدی کا عظیم آباد تو ایک پوری کتاب کا متقاضی ہے۔ دہلی سے اشرف علی خاں فغاں آئے اور میر باقر حزیں آئے۔ ان دونوں نے عظیم آبادی کے شعری روایت کی تعمیر میں حصہ لیا۔ فغاں کی تو شادی بھی عظیم آباد میں ہوئی اور عظیم آبادی کی سرزمین میں آسودۂ خاک ہیں۔ چند برسوں تک ان کی قبر کا کتبہ عظیم آباد کے اک پرانے قبرستان میں موجود تھا۔ میں 2003 میں فغاں کی قبر پر حاضر ہوا تھا اور تھوڑی سی مٹی ہٹانے کے بعد کتبہ دکھائی دینے لگا۔ شام کا وقت تھا اور کتبہ کا رنگ بھی شام سے ہم آہنگ معلوم ہوتا تھا مگر ایک روشنی کا کہیں احساس سا تھا جس کی روشنی میں قبرستان تک جانا ہوا اور وہ روشنی اب بھی موجود ہے، ان کے دیوان کی نئی اشاعت کی صورت میں۔ میر باقر حزیں کا دیوان دستیاب نہیں ہوسکا۔ چند اشعار جو تذکروں میں ملتے ہیں ان کی روشنی میں میں نے میر باقر حزیں پر ایک مضمون 2010میں لکھا تھا جو اردو دنیا میں میرے کرم فرما مخمور سعیدی نے شائع کیا۔ تو ناصر عباس نیر کو میں کیا بتاؤں اور کیسے بتاؤ کہ عظیم آباد کے بارے میں کیا سوچتا ہوں یا محسوس کرتا ہوں۔ تذکرہ ٔشورش کے مختلف اشعار اپنے مصنف یا شاعر کی موت کا اعلان کرکے اپنی معنویت پر اصرار کرتے ہیں۔ مصنف کی موت کا نظریاتی اعلان تو رولاں بارتھ نے بہت بعد کو کیا تھا۔ تذکرۂ شورش میں تو بہت پہلے تذکرہ نگار نے اعلان کردیا تھا۔ اشعار لوگوں کو متاثر کریں گے مگر شاعر اور مصنف کا سراغ نہیں مل سکے گا۔ صرف نام سے واقفیت تو ایک معنی میں مصنف کا مرجانا ہی تو ہے۔ اصل مسئلہ تو شاعر کے حالات زندگی اور شخصی معاملات سے ہے جن کی روشنی میں شعر کی تفہیم و تعبیرکا سلسلہ جاری تھا اور آخرکار یہ کہنا پڑا کہ شعر کے وجود میں آجانے کے بعد مصنف کی موت ہوجاتی ہے۔

یہ میری کیسی محبوری ہے کہ تذکرۂ شورش سے نگاہ ہٹتی نہیں۔ شعرا کے بارے میں دو چار جملوں میں بھی میری دلچسپی ہے، شورش نے، علاقہ، طبیعت، پیشہ وغیرہ کے بارے میں جو اطلاعات دی ہیں ان سے شعر کی قرأت پر کوئی روشنی نہیں پڑتی اور یہ بات یوں بھی کوئی حیران کرنے والی نہیں۔ لیکن مجموعی طور پر یہ کتاب تہذیبی تاریخ بن گئی ہے۔ ایک مخصوص عہد کی زندگیاں چند جملوں کے ساتھ روشن ہوجاتی ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے کلیم الدین احمد نے تذکرۂ شورش کو دیکھ نہیں سکے۔ وگرنہ انھیں ان منتشر، مختصر، جملوں میں اپنے شہر اور علاقے کی تہذیبی دھڑکنیں سنائی دیتیں۔ مگر شورش کو بھی کہاں معلوم تھا کہ وہ جو تذکرہ لکھ رہے ہیں اس کی تنقیدی اور تحقیقی کمزوریوں کو ان کے شہر کا ایک  نقاد، سختی کے ساتھ نشان زد کرے گا جو آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ اور ایف آر لیوس کا شاگرد ہوگا۔ مگر یہ بھی تاریخ کا ایک عمل ہے کہ کلیم الدین احمد نے دو تذکرے کے نام سے دو جلدوں میں تذکرۂ شورش اور تذکرۂ عشقی کو مرتب کیا۔ اس میں ندرت یہ ہے کہ دونوں تذکروں میں جن شعرا کا ذکر ہے انھیں ایک ساتھ بلکہ بالمقابل رکھا گیا ہے تاکہ ایک نظر میں دو تذکرہ نگاروں کی رائے اور ذوق کو دیکھا جاسکے۔ عشقی کا تعلق بھی عظیم آباد سے تھا۔ عشقی کا پورا نام محمد وجیہ الدین عشقی عظیم آبادی ہے۔ تذکرۂ شورش کے مصنف کا نام سید غلام حسین شورش عظیم آبادی ہے۔ تذکرۂ شورش کا ترجمہ فارسی زبان و ادب کے عالم عطا کاکوی نے کیا تھا جو 1968 میں شائع ہوا۔ مگر مجھے اس ترجمے کا علم بہت بعد کو ہوا۔ عطا کاکوی عظیم آباد میں مقیم تھے اور ایک طویل عرصہ فارسی زبان و ادب کی تدریس میں گزارا۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ مطالعۂ شاد، مطالعۂ حسرت ان کی اہم تصانیف ہیں۔ حیرت زار کے نام سے انھوں نے بیدل عظیم آباد کے کلام کا انتخاب بھی کیا تھا۔ عطا کوی نے دیباچے میں اس جانب اشارہ کیا ہے کہ شورش نے یہ تذکرہ اپنے استاد شاہ رکن الدین عشقی گھسیٹا کی ایما پر لکھا۔ میر باقر حزیں سے شورش اصلاح لیتے تھے۔

عطا کاکوی نے شورش کے مقدمے کی روشنی میں لکھا ہے، وہ میر کے ’نکات الشعرا‘ سے خوش نہیںتھے اور وہ میر کی سیادت کے بھی قائل نہیں ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا ایک جبر ہے کہ عظیم آباد کی جن شخصیات سے میر کا تعلق استادی اور شاگردی کے طور پر قائم ہوا اسی عظیم آباد کے ایک تذکرہ نگار نے میر سے اپنی ناراضگی ظاہر کی اور ا س کی بنیاد ظاہر ہے کہ میر کا رویہ ہے۔ عطا کاکوی کے تذکرے کو لوگ کم جانتے ہیں۔ شورش اور جوشش کو ادبی دنیا راسخ اور شاد کی طرح تو نہیں جانتی، اصل میں سارا مسئلہ متن کا ہے۔ جوشش کا دیوان کسی سے زبرستی پڑھوایا نہیں جاسکتا، البتہ شعری و ادبی تاریخ کو تسلسل کے ساتھ دیکھنے والے دیکھنا چاہتے ہیں کہ شعری روایت کی تشکیل میں کس نے کتنا کردار اداکیا۔ جوشش کا ایک شعر میں نے چند برس قبل قاضی عبدالودودکے مرتبہ دیوان جوشش کے نسخے میں نمایاں کردیا تھا        ؎

احوال دیکھ کر مری چشم پرآب کا

دریا سے آج ٹوٹ گیا دل حباب کا

ضمیر علی بدایونی نے ایک مضمون میں آتش کا شعر معنی اور شخصیت کے سیاق میں درج کیا ہے:

اے موج بے لحاظ سمجھ کر مٹائیو

دریا بھی ہے اسیر طلسم حباب کا

جوشش کا شعر متفرقات میں ہے۔ آتش کی اس زمین میں پوری غزل ہے۔ تو جوشش کا شعر میر کی چشم پرآب سے قریب ہے اور لفظی و معنوی رعایتوں اور مناسبتوں کے ساتھ اس کا رخ بھی ایک معنی میں میر کی داخلی دنیا کی طر ف ہے۔ آتش کی صناعی میں حیات کی بے ثباتی یا زندگی کی بے ثباتی کی صورت میں نظر نہیں آتی۔ اے موج بے لحاظ کی ترکیب پھر مٹائیو۔ وہ بھی سمجھ کر گویا حباب کو تو موج بے لحاظ کی زد میں آتا ہی ہے۔ لیکن طلسم جہاں کا موج لحاظ کیا کرے گی دریا بھی تو اس میں بند ہے۔ مشابہت کی صورت میں۔ لفظ مٹائیو دہلی اور عظیم آباد کے لسانی ذوق سے قریب ہے۔ ممکن ہے صرف وزن کی ضرورت آتش کو مٹانا سے مٹائیو کی طرف لے گئی ہو۔ ناصر عباس نیر کو کیسے بتاؤں اور کیا بتاؤں کہ دیکھیے عظیم آباد کے بارے میں میں یہ محسوس کرتا ہوں۔ احساس کا یہ عمل ناصر عباس نیر کی عصری آگہی سے شاید قریب نہیں مگر وہ توتاریخی آگہی اور تاریخی بصیرت کو بھی ایک معنی میں عصری بصیرت کے طو رپر دیکھتے ہیں۔ میر عظیم آباد نہیں آئے وہ اگر عظیم آباد آ جاتے تو پھر کیا ہوتا۔ اس تصور کی روشنی میں کوئی افسانہ لکھا جاسکتا ہے مگر میر کی مثنوی ’شعلہ شوق‘ کا قصہ تو عظیم آباد سے ماخوذ ہے۔ یہی قصہ شوق نیموی کی مثنوی کا بھی ہے۔ نثار احمد فاروقی نے اس مسئلے پر شعلۂ شوق کا ماخذ عنوان سے مضمون لکھا جو ’تلاش میر‘ میں شامل ہے۔

بیدل کو بیدل کے وطن میں پروفیسر لطف الرحمن کی شکل میں ان کا ایک حافظ اور شارح مل گیا تھا۔ لطف الرحمن کو بیدل کے جتنے اشعار یاد تھے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بیدل کو پڑھتے ہوئے وہ کچھ اور ہوجاتے تھے۔ لطف الرحمن نے مونگیر کی لائبریری میں کلام بیدل کے ایک انتخاب کا سراغ لگا لیا تھا بعد کو شریف حسین قاسمی نے اس انتخاب کو حاصل کرکے شائع کیا۔ اس نسخہ کی اہمیت یہ ہے کہ بیدل نے خود ہی اپنے کلام کا انتخاب کیا تھا۔ بیدل کا وطن کہتے ہوئے بیدل کی غریب الوطنی کا خیال آتا ہے۔ ضمیر علی بدایونی نے اس غریب الوطنی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ لکھا ہے کہ بیدل عظیم آباد میں پیدا ہوا، دہلی میں انتقال ہوا اور افغانستان کا شاعر قومی شاعر بن گیا۔ مجھے یاد ہے کہ برس دن قبل بیدل کے تعلق سے ایک میٹنگ دہلی میں ہورہی تھی۔ایران کے دو اسکالر بھی موجود تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ میرا کوئی تعلق عظیم آباد سے ہے تو انھوں نے کھڑے ہوکر مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔ تو یہ متن کی گردش ہے اور معنی کی بھی۔ بلکہ شخصیت بھی اس گردش کا حصہ رہی۔ وزیرعلی عبرتی، عظیم آبادی کا خیال آتا ہے جو غالب کے ہم عصر تھے۔ انھوں نے ریاض الافکار کے نام سے فارسی نثر نگاروں کا تذکرہ لکھا۔ اس میں غالب کی نثر کا حوالہ بھی موجود ہے۔اس تذکرہ کو غالباً پہلی مرتبہ نثار احمد فاروقی نے متعارف کرایا۔ خیر اب یہ تذکرہ ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ سے شائع ہوگیا ہے۔ نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

’’غالب کی نثر کے نمونے کے طور پر ان کے ایک فارسی خط کا اقتباس پیش کیا گیا ہے۔ یہ خط کلیات نثر غالب میں موجود ہے، مگر ہم اس کی متعلقہ عبارت یہاں اس لیے نقل کررہے ہیں کہ اس میں نسخہ مطبوعہ سے بعض اختلافات بہت اہم پائے جاتے ہیں۔ ہم نے مقابلہ کلیات نثر غالب کے اس مطبوعہ نسخے سے کیا ہے جو مطبع منشی نولکشور سے جنوری 1868 میں چھپا تھا۔ زیر علی عبرتی کی ملاقات کبھی غالب سے نہیں ہوئی۔ لیکن وہ غالب کا ذکر بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ کرتا ہے۔ غالب کے بارے میں ان کے معاصرتذکروں میں جو کچھ لکھا ہے اس کے ذیل میں ریاض الافکار کی مندرجہ عبارت بہت اہمیت رکھتی ہے۔‘‘ (تلاش غالب، ص264)

غالب کلکتہ جاتے ہوئے عظیم آباد سے گزرے۔ اس بارے میں کوئی تحریر نہیں ملتی۔ داغ کلکتہ جاتے ہوئی عظیم آباد میں مقیم ہوئے، اس کی تفصیلات مبارک عظیم آباد نے لکھی ہے جس کا عنوان ہے ’داغ عظیم آباد‘ ہیں۔ داغ کی غزل کا مشہور مقطع قیام عظیم آبادی کا ثبوت فراہم کرتا ہے:

کوئی چھینٹا پڑے تو داغ کلکتہ چلے جائیں

عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں

اب یہ شعر تو داغ اور عظیم کے رشتے پر بنیادی حوالہ بن گیا ہے۔ کلیات نظیر اکبرآبادی کوپہلا مرتب و شارح اور ناقد عظیم آباد سے ملا۔ عبدالغفور شہباز کی کلیات نظیر اور مجموعہ بے نظیر نے نظیر کی تفہیم و تشریح اور ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ ناصر عباس نیر کے ایک بظاہر سیدھے سادے سوال نے مجھے فکر و احساس کی جن منزلوں سیگزاراہے اس کے لیے ان کا ممنون ہوں مگر ابھی تو ایک دفتر لکھا جانا باقی ہے، مگر پھر بھی، اس وقت تو شمشاد لکھنوی کا شعر یاد آرہا ہے       ؎

اظہار بوے مشک غزالوں کے سامنے

دعویٰ زباں کا لکھنؤ والوں کے سامنے

علامہ فضل حق آزاد عظیم آبادی نے اس کا جواب دیا      ؎

یہ بستی اب بھی بازار ختن ہے باکمالوں سے

غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباو والوں سے