شمیم حنفی اور خیال کی دستک

یہ تحریر 228 مرتبہ دیکھی گئی

6 مئی کی تاریخ دبے پاؤں کتنی خاموشی کے ساتھ چلی آئی۔شاید ہمیں یہ بتاناچاہتی ہو کہ مجھ میں وہی ٹھہراؤ اورخاموشی ہے جو شمیم حنفی کی شخصیت کاحصہ تھی۔یہ پوراہفتہ جن مصروفیات کے درمیان گزراان میں باربار6 مئی اپنی قربت کااحساس دلاتارہا۔کل کی شام اور رات گذر گئی۔صبح ہوئی تو محمود حسن صاحب کی پوسٹ نے شمیم حنفی صاحب کی یادوں کاایک سلسلہ ساقائم کر دیا۔دن چڑھاتوپروفیسر ناصر عباس نیر کی ایک مختصر سی تحریر نے شمیم حنفی کے تعلق سے آج کی تاریخ کو کچھ اور بامعنی بنادیا۔اپنے گھر کی سیڑھیوں سے اترنے کے بعد جو راستہ مجھے دکھائی دیاوہ شمیم حنفی صاحب کے اس نئے گھر کاراستہ تھاجہاں وہ ذاکر باغ سے منتقل ہوئے تھے۔یہ گھر میری رہائش گاہ سے بہت قریب ہے۔ پندرہ سے بیس منٹ میں ان کے گھر پاپیادہ پہنچاجاسکتاہے۔راستہ جب مختصر ہوجائے تو منزل دور نکل جاتی ہے اور محسوس ہوتاہے کہ جیسے دوری منزل تک پہنچنے میں زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔میں پیدل ہی شمیم حنفی صاحب کے گھر جارہاتھا۔صباانٹی کو بتائے بغیر گھر پہنچ گیا۔آج میں نے گھنٹی نہیں بجائی بلکہ دروازے کی کنڈی ہلائی۔شاید اسے کنڈی نہ کہاجائے۔ شمیم حنفی صاحب کی کوشش ہوتی تھی کہ گھنٹی بجائے بغیر ہلکی سی آواز سے اہل خانہ کوخبر ہو جائے کہ کوئی ملنے آیاہے۔میں اکثر ان کے گھر پہنچ کر لوہے کی ایک شیے جو دروازے کو دیوار اور پٹ سے جوڑتی ہے، اس کو حرکت دیتا۔


آج شدت کے ساتھ مجھے دستک اور آواز کاخیال آرہاہے۔شمیم حنفی صاحب کی نظر میں ان دونوں کی خاص اہمیت تھی۔ان کاشعری مجموعہ ’آخری پہر کی دستک‘کاکوئی رشتہ دروازے کی دستک سے بھی تو ہوگا۔گھنٹی دستک کی تہذیب کامقابلہ نہیں کر سکتی۔آواز اور بے ہنگم آواز کافرق بھی ہماری تہذیبی زندگی کاایک اہم حوالہ ہے۔شمیم حنفی صاحب کو پنکھے کاشور بھی پریشان کر تاتھا۔زیادہ سے زیادہ وہ پنکھے کو تین پر رکھناچاہتے تھے۔سرور پنکھے کی رفتار کو کم کر دو۔اسی درمیان صباانٹی آجاتیں اور کہتیں کہ سرور باہر سے آئے ہیں ان کو گرمی لگ رہی ہوگی اور وہ چار یاپانچ پر پنکھے کے ریگولیٹر کو کر دیتیں۔شمیم حنفی صاحب کی زندگی اور ادبی زندگی میں سخن اور خاموشی کاجو عمل تھاوہ ایک دوسرے سے گریزاں نہیں تھا۔انہیں نہ زندگی میں پوز پسند تھااور نہ ادب میں۔پوز ایک طرح کی خود نمائی اور غیر ضروری صناعی کااظہارہے۔صباانٹی نے آوازسنی اور کہاسرور اندر آجاؤ۔میں اسی کمرے میں بیٹھا جو شمیم حنفی صاحب کی لائبریری ہے۔اس کمرے میں بیٹھ کر ذاکر باغ کے کمرے کاخیال آتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اسی طرح کتابوں اور اشیاکورکھاگیاہے جس طرح وہاں تھیں۔دو طرف کو دیواروں سے کتابیں لگی ہوئی ہیں جو تقریباً چھت کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔صوفے کی وہی ترتیب ہے جو وہاں تھی۔خاص طورپر وہ چھوٹی سی چوکی اسی طرح دیوار سے لگی ہوئی ہے جس طرح ذاکر باغ میں تھی۔چھوٹے چھوٹے کُشن اور ایک بڑاساتکیہ دیوار سے لگ کر شمیم حنفی صاحب کی اس موجودگی کااحساس دلاتاہے جس کامقدر اب غیاب ہے۔
آج میں نے اسے دیکھااور کئی بار دیکھالیکن اُس پر بیٹھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔اس کاخالی پن کتناپر شور اور طاقتور ہے۔یہاں کی خاموشی جس موجودگی کااحساس دلاتی ہے اس کے لیے ایک احساس کی دولت بھی درکارہے۔ اس احساس کو شمیم حنفی صاحب نے احساس کی نظرکانام دیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ احساس سے بڑی کوئی بڑی نظرنہیں ہوتی۔لیکن احساس کی یہ نظر ایک عمر کی علمی اور ادبی ریاضت کے بعد وجود میں آتی ہے۔میں جس صوفے پر بیٹھاتھاوہاں سے یہ چوکی کتنی پاس ہے اور بغور دیکھئے تو کتنا فاصلہ ہے۔اسی چوکی پر بیٹھ کر نہ جانے کتنے صفحات مطالعہ میں آئے اور قلم بند کئے گئے۔ذاکر باغ میں یہ چوکی جہاں واقع تھی اس کے سامنے ہی وہ دروازہ تھاجو گھر کے لیے کھلتاہے۔یہاں سے باہر دورتک دیکھاجاسکتاہے۔اگر کوئی شئے راہ میں حائل ہو سکتی ہے تو وہ درخت ہے۔اسی درخت پر ایک ایسا موسم آتا جس میں چھوٹے چھوٹے زرد پھول کھلتے تھے۔تیز ہواکاجھونکاان زرد پھولوں کو دروازے اور سیڑھیوں پر لے آتا۔میں نے اپنی کتاب میں شمیم حنفی صاحب کے تعلق سے اس درخت کاذکر کیاہے۔جب میں باہر نکلتاوہ دروازے پہ آکر کہتے کہ دیکھو کیسے پھول کھلے ہیں۔اس کے بعد کھلے ہوئے پھول مجھے کچھ اور کھلے ہوئے نظرآتے یامحسوس ہوتاکہ جیسے اس آواز کے بعد کچھ اور پھولوں کو کھلناہے۔آج ان کے نئے گھر میں پرانے گھر کی باتیں یاد آنے لگیں۔کچھ باتوں کاانٹی سے میں نے ذکر کیا اور یوں ہواکہ تیز ہوائیں چلنے لگیں۔شمیم حنفی صاحب نے آندھی اور تیز ہواکے بارے میں کبھی کوئی گفتگو نہیں کی۔ہو سکتاہے کہ انہوں نے کبھی کچھ کہا ہو اور مجھے یاد نہ ہو۔البتہ اتنا یاد ہے کہ منیر نیازی کاشعری مجموعہ ’تیز ہوااور تنہاپھول‘کاایک شام ذکر نکل آیاتھا۔خلیل الرحمن اعظمی کاایک شعر شمیم حنفی صاحب کے پسندیدہ شعروں میں تھا۔
گذشتہ رات بہت تیز چل رہی تھی ہوا
صداتودی پہ کہاں تک تمہیں صدادیتے
ابوالکلام قاسمی نے اس شعر کی سیاسی جہت کی جانب بھی اشار ہ کرتے ہوئے اسے تقسیم سے وابستہ کر دیاتھا۔شمیم حنفی صاحب گھر سے نکل کر جب سڑک پہ آیاتوبہت ہوابہت تیز چل رہی تھی بلکہ اسے آندھی کہناچاہیے۔پوری فضاگردآلود تھی۔ذرادیر میں پوراجسم غبارسے اٹ گیا۔دیر تک ہواکایہ جھونکاغبار کو اڑاتارہا۔آنکھوں میں جتناغبار آیاتھاوہ جسم پر سجنے والے غبار سے یقینا کچھ کم رہاہوگا۔میں دیر تک آنکھیں ملتارہااور پھر یہ ہواکہ آنکھیں ملتے ہوئے شمیم حنفی صاحب کی آخری آرام گاہ تک چلاآیا۔
شمیم حنفی صاحب کو آج یاد کرتے ہوئے باربار ’خیال‘کاخیال آتاہے۔ان کی نگاہ میں اچھے ادب کی بنیادی شناخت خیال ہی تھا جس کی مسافت وقت کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جاتی ہے۔جیساکہ میں لکھ چکاہوں کہ انہیں نہ زندگی میں شور پسند تھااور نہ ادب میں لیکن وہ اس داخلی طغیانی اور شور کے مداح و طرفدار تھے جو قرأت کے عمل کو سادہ اور معصوم رہنے نہیں دیتا۔انہوں نے شعر وادب کے مختلف اسالیب سے بامعنی رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی۔آخر کوئی بات تو ہے کہ آخری چند برسوں میں وہ اس بار پر بہت زور دینے لگے تھے کہ ادیب ہونے کامطلب ایک خاص طرح کی فکراور زبان کاقیدی ہو جانانہیں ہے۔ہماری تہذیبی زندگی میں کتنی وسعت اور رنگارنگی ہے اور ہم ہیں کہ بس ایک لکیر کو پیٹتے جارہے ہیں۔دنیا میں کیساشور وشر مچ رہاہے اور ہم ہیں کہ رعایت لفظی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔کوئی سنے گا اور دیکھے گاتو کیاکہے گا۔کیسی چھوٹی سی دنیاہم نے بنائی ہے اورفکر پر کیسازوال آیاہے پھر بھی ہم اپنی سمٹی ہوئی دنیاپر نازاں ہیں۔وہ اپنی شعری اورادبی روایت کاجتناگہراادراک رکھتے تھے۔ان کی تحریروں کو پڑھ کر روایت سے ان کی گہری آشنائی کااظہار ہوتاہے لیکن روایت نے انہیں فکری سطح پر ایک وسیع وعریض دنیا بنانے کاحوصلہ بخشااور وہ نرمل ورماکی طرح اپنی روایت کو اپنے وقت کے ساتھ رکھ کر نہ صرف دیکھ سکتے تھے بلکہ اس سے ایک رشتہ بھی قائم کر سکتے تھے۔گویاشمیم حنفی صاحب کی نظر میں روایت ٹھہری ہوئی کوئی شئے نہیں تھی۔وہ آگے بڑھتی ہے،زمانے کے ساتھ دو دو ہاتھ کرتی ہے اور زمانہ بھی کبھی کبھی اور اکثر روایت سے مات کھاجاتاہے۔شمیم حنفی صاحب ادب کے جس داخلی شورکوسننے میں کامیاب ہوئے وہ ہماری ادبی تاریخ کاایک اہم حوالہ ہے۔اس حوالے کے بغیر ہمارے ادبی مطالعہ کی کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔شعر وادب میں داخلی شور کوسننے اور محسوس کرنے یااس دنیا میں داخل ہونے کے کئی راستے ہیں۔ان تمام راستوں کو شمیم حنفی صاحب نے اختیار کیا لیکن وہ جس حقیقت تک پہنچے اسے انہوں نے استعارہ،تشبیہ،تجنیس،مجاز مرسل،ایہام وغیرہ کانام نہیں دیا۔انہیں ادب میں نام دینے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔وہ بلراج مین را کے افسانوں کی طرح ادبی مطالعات کے تعلق سے بھی سمجھ گئے تھے کہ سارامسئلہ نام رکھنے اور نام دینے کاہے۔
آج پھر سر اوپرشام آئی ہوئی ہے۔شمیم حنفی صاحب نے شام سرائے کے نام سے ایک ناول لکھنے کامنصوبہ بنایاتھا۔آج کی یہ شام کتنی مختصر یاکتنی لمبی ہے یہ کون بتائے گا۔میں اگر بتانے کی کوشش کروں تو ایک یہ ایک ناکام سی کوشش ہوگی۔یہی وہ ناکامی ہے جو داخلی سطح پر حوصلہ دیتی ہے۔شام پھر بھی وقت کی روشنی میں گزر جائے گی۔اس کے بعد کااندھیراکتناگہراہوگا۔ گھڑی کی ٹک ٹک اپنی رفتار سے سفر کو جاری رکھے گی۔وقت کایہ تصور کتناسادہ اور معصوم ہے۔شمیم حنفی کے لیے وقت کاتصور بڑی حد تک شام سے مخصوص تھا۔

06/05/2023