شفیع جاوید:شخص اور افسانہ نگار

یہ تحریر 2210 مرتبہ دیکھی گئی

            شفیع جاوید کے ساتھ نئے افسانے کا ایک دور ختم ہو گیا۔یوں تو ہم سب کی عمریں ایسی  اور اتنی ہو چکی ہیں کہ روز ہی کسی نہ کسی کا جانامتوقع رہتا ہے۔اور پھر اس زمانے میں ذہنی الجھنیں اور جسمانی عوارض بھی لوگوں کو کچھ زیادہ ہی عارض ہو جاتے ہیں۔میں ستر پچھتر برس پہلے کے دنوں کو یاد کرتا ہوں کہ دنیا اس وقت اتنی ترقی یافتہ نہ تھی،لوگوں کے سروکار سادہ اور بڑی حد تک معصومانہ تھے۔ جنگ آزادی اور ملک کو انگریز سے نجات دلانے کی جد و جہد کے بعد زندگی میں صرف مہنگائی اور قلت کے مسائل تھے۔ اس وقت پچاس یا ساٹھ برس کی عمر بہت طویل سمجھی جاتی تھی۔مجھے یاد ہے کہ جب میرے دادا مولوی حکیم محمد اصغر صاحب کا انتقال ہوا (۱۹۴۶)تو اکثر لوگوں کا خیال تھا (ان میں میرے والد بھی تھے)کہ وہ بہت،بہت لمبی عمر پا کر اللہ کو پیار ے ہوئے ہیں۔لیکن جب حساب ہوااور چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا ان کی عمر شریف بہتر سال کی تھی جب  انھوں نے اس دنیاے دنی کو خیر باد کہا۔

            اب زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے، یا یوں کہیں کہ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ ملک کو غیر کے چنگل سے آزاد ی دلانااب مسئلہ نہیں،لیکن جو مسائل اور تشویشات اس کی جگہ ہیں ان میں وہ شدت ہے، اور ان کی وہ کثرت ہے کہ جن کی بنا پر زندگی پہلے سے بہت زیادہ مشکل معلوم ہونے لگی ہے۔اب ہم لوگوں کی عمریں عام طور پر پہلے کے لوگوں سے زیادہ ہونے لگی ہیں،لیکن ہم لوگ وقت کے بہت پہلے بوڑھے بھی ہونے لگے ہیں،یا لگنے لگے ہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ پچاس ساٹھ برس کے ہمارے ساتھی وقت سے بہت پہلے دنیا سے چلے جایا کرتے تھے۔نمایاں ترین لوگوں ہی کے نام لیجئے تو خلیل الرحمٰن اعظمی،ناصر کاظمی،ابن انشا، شکیب جلالی،بانی،عمیق حنفی کے نام فوراً یاد آتے ہیں کہ ان میں کچھ نے پچاس سے کم عمر پائی اور باقیوں کی پانچویں دہائی بمشکل پوری ہو سکی۔اس لئے اب تو یہ ہو گیا ہے کہ کسی کے گذرجانے کی خبر آئے، ہم ٹھنڈی سانس بھر اناللہ پڑھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہاں،اب ان کا وقت آہی گیا تھا۔ پریم کمار نظر مرحوم جیسے بانکے شاعر کی حالیہ سناونی پر کوئی رد عمل سامنے نہ آیا،سب نے یہی سوچا کہ ٹھیک ہے،اب تو لوگ مر ہی رہے ہیں۔

            یہ سب ہے۔ دنیا اب بہت معاند ہے، زمانہ عملاً اور قولاًالجھا ہوا، اپنی اپنی دھن میں گم،دوسروں کو نظر انداز کرتا چلتا ہے، لیکن پھر بھی ہم میں کچھ ایسے ہیں جن کا اس خاکدان کو خالی کردینا دلوں کو کھٹک جاتا ہے کہ اب یہ کیا ہو گیا، کیا ا یسا بھی ہونا تھا؟میں ابھی پریم کمار نظر کا وفات نامہ لکھ ہی رہا تھا کہ سنا شفیع جاوید ہم کو چھوڑ کر چل دیئے۔ جس زمانے کا ذکر میں نے اوپر کیا، ہم تینوں کی جڑیں اسی زمانے میں تھیں،صرف اس فرق کے ساتھ کہ میں اور شفیع جاوید کی خاندانی روایات،رسوم و رواج، کائنات اور انسان کے بارے میں تصورات،سب ایک جیسے تھے۔ اب تو وہ طبقہ ہی معدوم ہو نے لگا ہے جسے ایک زمانے میں مسلمان شرفا کا طبقہ کہتے تھے۔ غریب ہوں یا مرفہ الحال،دنیا میں نمایاں ہوں یا گمنام،لیکن سب لوگ اپنے ماحول میں برابر کے شریک تھے۔شفیع جاوید کبھی کبھی اپنے والد مرحوم کے واقعات مجھے سناتے تو لگتا، میں اپنے خاندان کے کسی بزرگ کا حال سن رہا ہوں۔ہم لوگ بہت جلد ایک دوسرے کے قریب ہو گئے، اور مرحوم محبوب الرحمٰن فاروقی سے تو با وجود تفاوت عمری،ان کا یارانہ بھی بہت جلد قائم ہو گیا تھا۔محبوب کی شادی میں شرکت کے لئے وہ بطور خاص گورکھپور آئے تو مجھے تھوڑا سا تعجب اور بہت ساری مسرت ہوئی۔ اس شادی میں ہمارے دور دور تک پھیلے ہوئے خاندان کے بہت سے لوگ،اور بطور خاص ’بعد کے لوگ‘ (یعنی صرف چچا،بڑے باپ، ماموں، خالو وغیرہ نہیں،بلکہ ان کی اولادیں اور خویش)جمع تھے۔شفیع جاوید ان میں اس طرح گھل مل گئے کہ لگتا  تھا وہ بھی یہاں کے عم زاد بھائی، یا ماموں زاد بھائی وغیرہ ہیں۔

            طبیعتوں کے اس اشتراک نے ایک طرف تو مجھے شفیع جاوید کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور دوسری طرف شفیع جاوید کے دل میں ہم لوگوں کے لئے ایسی محبت پیدا کی جو آخری دم تک تر و تازہ رہی۔اس طویل مدت میں میرا اور شفیع جاوید کا ساتھ متعدد جگہوں پر ہوا۔ پٹنہ میں،جہاں وہ حکومت بہار کے بڑے افسر تھے،پھرایک طویل زمانے تک گورنر کے پریس سکریٹری یا شاید سکریٹری براے تعلقات عامہ رہے۔ ہم لوگوں کو ایک دوسرے کے درجات و مناصب میں ایسی کچھ دلچسپی نہ تھی جیسی عام طور پر سرکاری افسروں میں ہوتی ہے۔ پھر ان کے لائق صاحب زادے طارق سلمہ‘ کی تعیناتی کئی سال الٰہ آباد میں رہی تو ہم لوگوں کا ملنا جلنا اور بھی زیادہ ہوا۔ اس کے بعد ہمارے مراسم بیش از بیشتر طویل ٹیلیفونی گفتگوؤں پر مبنی رہے۔اختتام گفتگو پر مرحوم اکثر کہتے، ’ہماری حاضری نوٹ کر لی جائے۔‘

            غلط یا صحیح، مجھے بار بار محسوس ہوا کہ بھابی مرحومہ کے جنت نشین ہونے کے بعد شفیع جاوید کی زندگی میں جو خلا پیدا ہو گیا تھا اور مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں جیسی کیفیت زندگی میں

 آگئی تھی، اس کی کچھ تلافی ان کے قیام الٰہ آباد کے زمانے میں ہو سکی تھی۔ وہ بہت پڑھے لکھے شخص تھے۔ادب (بشمول مغربی ادب)، سیاسیات،سماجی زندگی، ان سب موضوعات سے انھیں بہت دلچسپی تھے۔ مجھے بھی ایسی ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ میں کاہل بھی بہت ہوں، پڑھ کر جتنا ذہن میں جا گزیں ہو گیا،وہ ہو گیا۔جو بھول گیا وہ بھول گیا۔ لیکن میں باقاعدہ یادداشت وغیرہ نہیں رکھتا۔اس کے بر خلاف شفیع جاوید اپنے مطالعے کے اہم نکات اور اقتباسات کو اپنی ڈائری میں درج کر لیتے تھے اور انھیں بکار بھی لاتے تھے۔ معاصر ادب سے بطور خاص لگاؤ تھا اوروہ نئی کتابوں رسالوں کے جویا رہتے تھے۔

            اس قدر خلا ملا اور بے تکلفی کے باوجود شفیع جاوید نے مجھے کبھی مکلف نہ کیا کہ میں ان کی تحریر پڑھوں یا چھا پوں۔اکثر وہ میری فرمائش ہی پر افسانہ بھیجتے تھے۔کم نویس بھی وہ بہت تھے۔ آج کے فیشن کے برخلاف وہ بہت تول کر،بہت سوچ کر لکھتے تھے۔ان کی تحریرمیں حشو وزوائد کم، بہت ہی کم ہوتے تھے۔بار بار پڑھ کر درست کرنے کے باوجود ان کی نثر میں کہیں بھی تکلف،یا آورد،یا بناوٹ نظر نہ آتی تھی۔لگتا تھا ایک بار قلم اٹھ گیا توپورا افسانہ تحریر میں آگیا۔ان کے افسانے بیش تر مختصر ہوتے،لیکن طویل لکھنے پر بھی وہ قادر تھے۔افسانوں میں دروں بینی بہت تھی،لیکن وہ خارجی دنیا کے محرکات کو جب چاہتے برت لیتے۔ایک طرح سے دیکھیں تو ان کے افسانے کسی وقت یا مقام میں بند نہ تھے،لیکن وہ جب چاہتے اس طلسم سے باہر بھی آجاتے تھے۔

            اسے طبیعت کی خود داری کہیں یا مزاج کا شرمیلا پن،شفیع جاوید کو اس بات سے چنداں غرض نہ تھی کہ ان کے سامنے ان کے فن، یا ان کے کسی افسانے پرگفتگو ہو۔اپنے بارے میں مضمون لکھوانے کا انھیں کبھی شوق نہ تھا،لالچ تو بڑی بات ہے۔مجھ سے بھی گفتگو تب ہوتی تھی جب میں خود سلسلہئ کلام آغاز کرتا اور ان کے کسی افسانے پرکچھ تبادلہئ خیالات کرتا۔ہم اردو ادیبوں کے بالکل بر عکس انھیں اپنے بارے میں زعم نہ تھا کہ ہم چو من دیگرے نیست۔لیکن سچ  یہ ہے کہ شفیع جاوید کا افسانہ تمام خارجی ادبی اثرات سے بالکل آزاد تھا۔انھوں نے کسی کی پیروی نہیں کی،تقلید تو بڑی بات ہے۔

            شفیع جاوید کے افسانے پر کسی کا اثر نہیں، انھوں نے اپنا طرز خود ایجاد کیا اور خود ہی وہ اس کے خاتم ٹھہرے۔ہم لوگوں نے جب ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو کرشن چندر،منٹو،بیدی،عصمت چغتائی جیسے غیر معمولی ناموں کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ہر چند کہ وہ چمک اب ذرا دھندلی تھی اور وہ دوکانیں اب اتنی اونچی نہ لگتی تھیں کہ سر اٹھا کر دیکھو تو ٹوپی گر جانے کا خدشہ ہو،لیکن بازار انھیں کا تھا،خریدار انھیں کے تھے۔مشکل یہ تھی کہ دنیا کی جو تصویر ان کے افسانوں میں نظر آتی تھی،وہ تصویر اور خود وہ دنیا بہت سادہ اور سہل الفہم تھی۔ اور ادھر یہ عالم تھا کہ دوسری جنگ عظیم، ملک کی آزادی اور تقسیم، تہذیبی بحران اور یہ احساس کہ ہماری تاریخ اچانک کچھ بدل گئی ہے، یہ سب مل کر ہمارے ذہنوں کے سامنے کچھ ایسی تصویربنا رہے ہیں جن میں کوئی چیز سہل الفہم نہیں اور کوئی چیز واضح بھی نہیں۔جدیدیت کو سمجھنے کے لئے قبل آزادی اور آزادی کے فوراً بعد کی زندگی کا تجربہ ضروری ہے۔ہم لوگ آدرشوں اور اصولوں کی شکست و ریخت کی بات یوں ہی نہیں کر رہے تھے۔اس بحران میں ایک بات یہ بھی شامل تھی کہ لکھیں تو کیا لکھیں، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کس طرح،کس انداز میں لکھیں؟

            شفیع جاوید اور ان کے معاصروں نے اپنے اپنے طور پر جو حل تجویز کئے ان پر عمل کرنے کے لئے شفیع جاوید نے درون بینی اور ماضی اور حال کو یکجا دیکھنے کا انداز اختیار کیا۔خود ان کے اطراف میں جو نیا افسانہ ظہور میں آرہا تھااس میں تجرید کا انداز نمایاں تھا۔شفیع جاوید کے یہاں تجرید سے زیادہ حقیقت کے نقصان کا تصور تھا،کہ زندگی نقصان اور گم شدگی سے عبارت ہے۔بڑی بات یہ تھی کہ نقصال اور حصول، گمن شدگی اور باز یافت،یہ سب بیک وقت موجود محسوس ہوتے تھے۔

            بعض افسانہ نگاروں نے خود نوشت اور افسانے کو مدغم کر دیا، یا مدغم کرنے کی کوشش کی۔احمد ہمیش کا افسانہ اس کی اچھی مثال ہے۔شفیع جاوید نے افسانے کو خود نوشت کا رنگ دے دیا، یہ عجب تازہ بات تھی۔وہ گردوپیش کو اور حال ہی میں ماضی بنے ہوئے حال کو اس طرح دیکھتے تھے گویا وہ سب خود ان ہی پر گذرا ہے۔جگہ جگہ محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگارآپ بیتی نہیں تو کم از کم اپنے بارے میں لکھ رہا ہے۔زندگی کس کس طرح گذرتی ہے،گذرتی ہے لیکن گذرتی ہوئی معلوم بھی نہیں ہوتی،یہ شفیع جاوید کے افسانوں کا حال ہے۔اس میں ماضی ہر جگہ ہے اور کہیں بھی نہیں ہے۔

            شفیع جاوید نے کم لکھا،مجھے ان کی کم گوئی سے گلہ بھی ہے اور میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ جس شدت اور ارتکاز کی نظر سے وہ دنیا کو دیکھتے تھے اس کا تقاضا شاید یہی تھاکہ حرف اظہار کو دنیا کے سامنے لانے میں حزم برتا جائے،ہر بات کاتا اور لے دوڑی کے مصداق نہ ہو۔اور زبان بھی تو اکثر اس قدر اجنبی معلوم ہوتی ہے کہ اس کے توسط سے خود کو بے نقاب کرنا بھی بڑی امتحانی منزل سے گذرنا ہے۔ بقول بیدل    ؎

                        اے بسا معنی کہ از نا محرمی ہاے زباں

                        باہمہ شوخی مقیم پردہ ہاے راز ماند

            شفیع جاوید تو چل دیئے،اچھے گئے لیکن ایک زمانے کو سوگوار کر گئے۔افسوس کہ موت بگاڑتی زیادہ ہے بناتی بہت کم ہے۔