شرافت اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی

یہ تحریر 266 مرتبہ دیکھی گئی

شرافت اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی
(استاد محترم شارب ردولوی کی یاد میں)

شرافت اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی
شرافت کی انتہائی صورت خوف پیدا کرتی ہے
لیکن قد کی درازی شرافت کے ساتھ کچھ جھکی جھکی معلوم ہوتی تھی
جیسے پھلدار درخت پھلوں کے بوجھ سے جھک جاتا ہے
شرافت کا کوئی موسم نہیں ہوتا
شرافت کو بلندی سے اگر خوف آتا ہے تو اسے نیچے آنا چاہیے
اسے کسی اور مکان جاں میں منتقل ہونا چاہیے
شرافت نہ بلندی سے نیچے آتی ہے اور نہ وہ کہیں منتقل ہوتی ہے
کسی نے لکھا تھا کہ شرافت کی تاریخ رذالت کی تاریخ سے بڑی ہوتی ہے
اس کے نیچے درج تھا
“نہیں رذالت کی تاریخ شرافت کی تاریخ سے بڑی ہے”
شرافت کو ایک پیکر کی صورت میں دیکھا تھا
زبان سے لفظ پھولوں کی طرح جھڑتے تھے
کلاس کلاس نہیں پھولوں کی بارش کا موسم معلوم ہوتا
قریب کی دنیا اس موسم سے کتنی نا آشنا تھی
شور کے جواب میں ایک مسکراہٹ اور خاموشی تھی
شور بھی کتنا بے ہنگم تھا
اسے خوف تھا علم سے بھی اور شرافت سے بھی
کبھی کبھی شرافت علم کا بدل بن جاتی اور کبھی پردہ
کبھی علم رک رک کر ٹھہر ٹھہر کر شرافت سے مکالمہ کرتا
اور کبھی وہ بے حجابانہ شرافت کے گلے میں باہیں ڈال دیتا
علمیت اور ذہانت شرافت کے ساتھ کتنی توانا معلوم ہوتی تھی
کبھی لگتا تھا کہ جیسے شرافت نے علم کا لبادہ اوڑھ لیا ہے
کبھی محسوس ہوتا کہ علمیت نے شرافت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے
رذالت شرافت کو معاف نہیں کرتی
جس طرح جہل علم کو معاف نہیں کرتا
شرافت کتنی فراخ دل ہے کہ وہ رذالت کو برداشت کر لیتی ہے
شرافت کی طرف سے عام معافی کا اعلان کیا کچھ کہتا تھا
کیا کچھ کہتا ہے
شرافت کی ایک لکیر وقت کے ساتھ کتنی لمبی اور گہری ہوتی گئی
اس لکیر کا آغاز ردولی اور لکھنو سے ہوا تھا
شرافت کی لکیر نے کتنی لمبی مسافت طے کی
کتنی اور کیسے ابڑ کھابڑ راستے آئے
یہ پھیلتی اور بڑھتی ہوئی لکیر کبھی کبھی پیشانی پر دکھائی دیتی
اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اندر اندر کتنا اور کیسا ہنگامہ بپا ہے
شرافت کی لکیر نے جہاں سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا وہاں کل اسے ایک نئی زندگی مل گئی
ردولی اور لکھنو یہ دو نام چہرے پر چمک لے آتے تھے
چہرے کی چمک لکھنو میں تھی یا لکھنو کی چمک چہرے پر
چمک بھی کیا تھی
تاریخ اور تہذیب کا ایک چہرہ جو کبھی زبان بن جاتا کبھی تحریر بن جاتا اور کبھی ہلکی مسکراہٹ اور کبھی خاموشی
ذہانت اور علمیت کی خاموشی شرافت کی خاموشی تو نہیں
میں اس وقت ان تینوں کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہوں
خیال میں اس کھنڈت کا پڑنا کتنا بڑا حادثہ ہے
مجھے معلوم نہیں کہ خیال کی دنیا کن راستوں سے ہو کر یہاں تک پہنچی ہے
شرافت کے اس پیکر نے کیا کچھ نہیں سمجھایا اور سکھایا
خوف کس بات کا تھا
خوف تھا بھی یا نہیں
وقت نے فاصلے کو بڑھایا یا کم کیا
وقت کوئی کتاب بھی ہے کوئی نظریہ بھی اور کوئی دکھ بھی
ہم جدیدیے تھے یا ترقی پسند
بالاخر کہاں سے چل کر کہاں پہنچے
دریدا کا ڈی کنسٹرکشن وزیر آغا کے لیے رد تشکیل تھا
شارب ردولوی کے لیے رد تعمیر
رد تشکیل ہو یا رد تعمیر کھیل تو تخریب کا تھا
کھیل کب سے متن کے اندر جاری ہے
وزیر آغا کو یہ کھیل زیادہ خوش آتا تھا
تخریب کا یہ عمل ایک معنی میں شریفانہ تو نہیں تھا
اس نے کس طرح ایک نوجوان کے افکار و خیالات کو ایک سمت عطا کرنے کی کوشش تھی
نوجوان کتنا اور کہاں باغی تھا
اس بغاوت کا حوصلہ بھی اسی سے ملا تھا
کیسی تہذیب تھی اور کیسی شرافت
اس راز کو سمجھنے میں کتنا وقت لگا کہ شرافت اور تہذیب کا یہ پیکر
تنہائی اور ذہنی تنہائی کے ساتھ کتنا تنہا تھا

سرور الہدیٰ
19/10/2023