سید صبیح الدین رحمانی کی نعت

یہ تحریر 2532 مرتبہ دیکھی گئی

                ایک طرح سے دیکھیں تونعت یا حمد کہنا نہایت آسان ہے۔ جتنا بھی مبالغہ کیجئے، جتنا بھی جوش عقیدت دکھائیے،سب روا ہے۔ محبت دلی اور معلومات واجب ہو تو اور بھی اچھا۔ مشکل یہ ہے کہ اس میدان میں تازگی مضامین کا فقدان ہے۔ وہی باتیں جو سب لوگ کسی نہ کسی انداز میں کہتے آئے ہیں، انھیں دہرا دیجئے، کام چل جائے گا۔ لیکن مضمون اور موضوع سخن کا حق ادا نہ ہو گا۔لوگوں نے مضمون آفرینی اور اظہار محبت کے سارے پہلو پہلے ہی برت لئے ہیں،اب ہمارے لئے صرف لفاظی ہی باقی ہے۔بعض لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر جذبہ صحیح اور شدید ہو تو کلام بھی خوب ہو گا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جذبہ جیسا بھی ہو، کتنا بھی سچا کیوں نہ ہو، اس کے لئے مناسب لفظ اور موزوں طرز بہم نہ پہنچا تو کیا بات بنی۔

                کچھ لوگ روایت کی صحت پر اصرار کرتے ہیں۔لیکن یہ استدلال سب سے زیادہ کمزور ہے۔ روایت غلط ہو جائے یا صحیح ترین مآخذ پر مبنی ہو، شعر کی خوبی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ہاں حفظ مراتب ایسی چیز ضرور ہے جس کا پاس نہ ہو تو نعت ہو یا حمد،دونوں بطور نعت یا حمد ناکامی کے خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ کچھ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ بات ایسی ہو جو شریعت کے معیاروں پر پوری اترے۔ایک صاحب جو روایت کی صحت کے بڑے پاسدار ہیں، انھوں نے مجھے ایک نعت بھیجی اور فرمایا کہ یہ حرم نبوی میں مواجہہ شریف میں کئی بار پڑھی گئی ہے۔ نعت میں سرور کائنات کی خدمت میں سلام پیش کئے گئے تھے، اور انداز یہ تھا، ’لیجئے گنہگاروں کا سلام؛لیجئے رشوت خوروں کا سلام‘ وغیرہ۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے لیجئے اور لے لیجئے/قبول کر لیجئے/قبول فرمالیجئے، کا فرق نہیں سمجھا۔بلا تشبیہ عرض کرتا ہوں کہ آپ تو ’لیجئے‘،’لیجئے‘ کہہ کرگویا پتھر کھینچ ماررہے ہیں،نعوذ باللہ من ذالک۔اس پر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

                حفظ مراتب کا معاملہ بہت باریک ہے، اکثر شعرا یہاں لڑکھڑا جاتے ہیں۔ لوگ اللہ کی ثنا میں عام طور پر لکھتے ہیں:یہ زمین آسمان تیرے ہیں، یہ پربت اور دریا تیرے ہیں، وغیرہ۔ارے صاحب جو مال جس کا ثابت ہے اسی کوآپ اس کی ملکیت بتا رہے ہیں، گویا نعوذ باللہ بخشش عطا کر رہے ہیں۔سعدی جیسا شاعر بھی چوک جاتا ہے جب وہ کہتا ہے 

                سعدی اگر عاشقی کنی و جوانی

                عشق محمد بس است و آل محمد

صاحب، عشق محمد و آل محمد کے لئے جوانی اور عاشقی کی کیاشرط ہے؟یہ تو وظیفہ حیات ہے ،یہ تو سرمایہ حیات ہے۔اس قسم کا مربیانہ انداز گفتگو،تمھیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

                دوسر ی مشکل نعت گو کے لئے یہ ہے، اور یہ بہت بڑی مشکل ہے: مانا کہ مولاے کائنات کی ثنا خوانی کے لئے مبالغے کی حد نہیں مقرر کر سکتے، لیکن کیا ایسی بات کہہ سکتے ہیں جو حدکفر تک پہنچ جائے؟ حضرت شاہ آسی سکندر پوری کا یہ مطلع آج تک موضوع بحث ہے

                وہی جو مستوی عرش ہے خدا ہو کر

                اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفےٰ ہو کر

حضرت آسی نے جواباً فرمایا کہ وہ تو مستوی عرش ہے، الیٰ الآن کما کان۔میں نے ’ہے‘ کہا ہے، ’تھا‘ نہیں کہا۔ لیکن لوگوں کی تشفی نہیں ہوئی۔ پھر حکیم حاذق نعمانی کا یہ شعر سامنے آیا

                جمال شاہد خلوت گہ غیب

                چو بر زد پردہ سر زد روے احمد

ایمان کی بات یہ ہے کہ اس شعر کی شرح حدود شریعت میں رہ کر مجھے تو مشکل معلوم ہوتی ہے۔ لیکن پھر یہ سوچئے کہ اقبال کے یہاں کسر حفظ مراتب ہے یا تصدیق مراتب

                وہ داناے سبل ختم الرسل مولاے کل جس نے

                غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا

                نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

                وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طٰہٰ

میں تو اسے مراتب کے عالم سے بڑھ کر سمجھتا ہوں۔ محبت اور غیر معمولی قوت شعر گوئی شرط ہے۔

                اس مختصر تمہید کے بعد میں نفس موضوع پر آتا ہوں، یعنی سید صبیح رحمانی کی نعت۔ صبیح کے یہاں سب سے بڑی بات مجھے یہ نظر آئی کہ انھیں رسول پاک علیہ السلام سے سچی محبت ہے اور وہ اس محبت کو اپنے شعر میں متشکل کر سکتے ہیں۔پیش پا افتادہ مضامین سے انھیں پر ہیز ہے اورعبارت آرائی سے بھی وہ دور بھاگتے ہیں۔نعت گوئی کے تقاضوں سے وہ واقف ہیں اور وہ اپنی بات میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کے بجاے محبت کی نرم حدت پیدا کرتے ہیں۔

                جیسا کہ میں عرض کیا، حمد و نعت میں مضمون پیدا کرنا بہت مشکل ہے،لیکن کہی ہوئی بات کو اپنے رنگ میں کہہ لینا بھی بڑا فن ہے۔ آرزوے دید اور تمناے حضوری کس کو نہیں ،لیکن ہر شخص صبیح رحمانی کی طرح یہ نہیں کہہ سکتا

                مٹا دل سے غم زاد سفر آہستہ آہستہ

                تصور میں چلا طیبہ نگر آہستہ آہستہ

                زباںکو تاب گویائی نہیں رہتی مدینے میں

                صدا دیتی ہے لیکن چشم تر آہستہ آہستہ

آرزوے دید پر مبنی ہزار لفظ لکھیں تو اس سے بہتر ہے کہ دربار محمد مصطفیٰ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوں اور یہ شعر پڑھیں جو میں اوپر نقل کئے۔یہ والہانہ، بچوں کی سی التجا کے بھی انداز خوب ہیں

                حضور آپ جو چاہیں تو کچھ نہیں مشکل

                سمٹ کے فاصلہ یہ چند گام ہو جائے

                حضور آپ جو سن لیں تو بات بن جائے

                حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے

یہ مچلنے اور ضد کرنے کے انداز ہزار عقلی ترکیبوں سے بہتر ہیں۔ شاہ عبد الزاق صاحب بانسوی کے ایک فرنگی محلی مرید تھے، ان کے بڑے بھائی فرنگی محل کے مشہورمدرسے کے بانی مولانا نظام الدین صاحب تھے۔وہ چھوٹے بھائی کا مذاق اراتے کہ تم کس جاہل کے مرید ہو جسے ٹھیک سے قرآن پڑھنا بھی نہیں آتا، معقولات و منقولات کی کیا بات۔تو ایک دن شاہ عبد الرزاق صاحب نے اپنے مرید سے کہا کہ اچھا تم بڑے بھائی کی بہت شکایت کرتے ہو کہ وہ آپ سے عقیدت نہیں رکھتے تو ایسا کرو،انھیں ایک دن میرے پاس لے آﺅ۔ خیر، پھر بڑے بھائی مولانا نظام الدین صاحب بھی شاہ صاحب سے ملاقات کو گئے۔ نماز کا وقت ہو چکا تھا، شاہ صاحب نے نماز پڑھائی، اور اپنے طرز کے مطابق گیر المگجوب ولاالجالین پڑھا۔ملا نظام الدین نے دل میں سوچا، توبہ، خدا معلوم نماز بھی ہوئی کہ نہیں، یہ شخص تو معمولی قرات بھی نہیں کر سکتا۔

                نماز سے فارغ ہو کر شاہ عبد الرزاق صاھب نے ملا نظام الدین سے ان کا حال چال رسماً پوچھا۔ معلوم ہوا ملا صاحب کا ایک بڑا بیٹا ہے،وہ عالم و فاضل ہے۔ دوسرا بہت چھوٹا ہے، ابھی توتلا ہے۔ شاہ عبد الزاق صاحب نے پوچھا، کہو، تمھیں کس کی بولی زیادہ پیاری لگتی ہے، بڑے بیٹے کی، جو عالم ہے،یا چھوٹے کی، جو توتلاہے۔ ملاصاحب کو قبول کرنا پڑا کہ ننھے بچے کے توتلے پن میں کچھ اور ہی لطف ہے۔ پھر شاحب نے ایک نعرہ کیا اور کہا ،حق تعالیٰ سے وہی تعلق پیدا کر لو جو اس ننھے بچے کا تم سے ہے تو اسے تمھارا گیر المگجوب بھی اچھا لگے گا۔ ملا صاحب نے اشک بار ہو کر توبہ کی اور حضرت کے مرید ہوگئے۔

                یہ واقعہ حضرت شاہ وارث حسن نے اپنے ملفوظات ’شمامة العنبر‘ میںبیان فرمایا ہے۔ کاش کہ ہم سب کو دربار نبوی کے بارے میں موشگافیوں کے بجائے وہ درد مندی حاصل ہوجائے جو اپنے باپ کے لئے ایک ننھے بچے کی محبت میں ہوتی ہے۔ مجھے صبیح رحمانی کے کلام میں جگہ جگہ یہ بات نظر آئی۔انھیں اپنے وجود کو ثابت کرنے سے زیادہ اپنی بے وجودی کو ظاہر کرنے کی لگن ہے

                یہ خیال رہتا ہے یہ ملال رہتا ہے

                مدحت نبی میں نے جتنی کی ہے کم کی ہے

                ان کو سوچتے رہنا یہ بھی اک عبادت ہے

                اور یہ عبادت تو ہم نے دمبدم کی ہے

                ختم ہونے ہی کو ہے در بدری کا موسم

                جلد دیکھوں گا میں شہر نبوی کا موسم

غور فرمائیں، شہر نبوی کے جلوے دیکھنے کا دعویٰ نہیں کیا، صرف اس کا موسم دیکھنے کی تمنا کی،صرف آپ کا نام لب پر ہو، اور کسی نعمت کی ضرورت نہیں

                تمنا ہے کہ ہو وہ نام نامی آپ کا آقا

                میں جو لفظ آخری بولوں میں جو لفظ آخری لکھوں

                دعا ہے کہ اللہ،اس کا نبی، اور اس کے بندے صبیح رحمانی کے اشعار کی صداقت کو شرف قبولیت بخشیں۔

الٰہ ٰآباد، ۲۴ مئی ۲۰۲۰ 

شمس الرحمٰن فاروقی