روپ بہروپ :مستنصر حسین تارڑکا نیا ناولٹ

یہ تحریر 2735 مرتبہ دیکھی گئی

  اس ناولٹ میں مستنصر حسین تارڑ کا قلم کسی بگولے کی طرح ماضی، حال اور مستقبل میں سرگرداں ہے۔ ”روپ بہروپ“ میں ہماری ساری پرانی اور نئی تاریخ، باری باری، کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ دریائے خون ہے جس میں ہم ڈوبتے اور ابھرتے ہیں اور نُو میدی کے کسی ساحل پر جا نکلتے ہیں۔

ہمارا ماضی، پیرِ تسمہ پاکی طرح، اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا۔ ہماری ستر سالہ آزدی کی روداد، جو کہیں کابوس ہے کہیں فریاد، ہم اس سے، جسے یاد بھی نہیں رکھنا چاہتے اور بھلا بھی نہیں سکتے، آباد بھی ہیں برباد بھی۔

خوں چکاں اور نا انصافی پر مبنی یہ ہماری کہانی ہے۔ کم زوروں کو ستانے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے قصے، دہشت گردی کے واقعات جو پشاور میں سکول کے بچوں اور استانیوں کے قتلِ عام پر ختم ہوتے ہیں۔ ہم لوریاں سنا کر اپنے ضمیر کو سلانا چاہتے ہیں لیکن یہ لوریاں وقتا فوقتاً عفریتوں کے قہقہوں میں بدل جاتی ہیں۔ یہ فردِ جرم ہے جو مستنصر نے دکھی ہو کر لکھی ہے۔ یہ ناولٹ آئینہ ہے۔ اس میں اگر اپنی صورت ٹیڑھی میڑھی نظر آتی ہے تو سوچنا چاہیے کہ ہمیں اپنا آپ بدلنے کی کتنی ضرورت ہے۔ آئینہ اٹھا کر پھینک دینے سے حقائق نہیں بدلا کرتے۔

(یہ ناولٹ معروف ادبی جریدے’سویرا‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے)