دیوندر ستیارتھی کی یاد میں

یہ تحریر 214 مرتبہ دیکھی گئی

دیوندرستیارتھی کو شمیم حنفی کی آنکھوں میں دیکھا۔
بلراج مین راکی آنکھوں سے دیکھا۔
دیکھنے کے لیے تھوڑی دھند کی ضرورت تھی اور وہ دیر سے آئی ۔
اس میں وہ دھول بھی شامل تھی جو دیوندرستیارتھی کے قدموں سے اٹھی تھی۔
دھول ہمیشہ آنکھوں کاسرمہ نہیں بنتی،اس میں تھوڑاوقت لگتاہے۔
دھول کے ساتھ اس کاایک وقت بھی ہے جو کئی زمانوں کوساتھ لے آتاہے۔
اوروہ آنکھوں میں بھی تو ٹھہرجاتاہے۔
دھول آنکھوں میں وقت کے ساتھ سفر کرتی ہے اور اسی سے وقت روشن بھی ہوتاجاتاہے۔
سناہے کہ دہلی کی سرزمین ستیارتھی کے قدموں سے اٹی پڑی ہے۔
میں اب بھی قدموں کے نشانات تلاش کر رہا ہوں۔
قدموں سے جو زمین لپٹی ہوئی تھی اس پر دھول صرف دہلی کی نہیں تھی۔
کتنے شہر اور قریے اس آوارہ منش کے لیے گھر اور آنگن کی طرح تھے۔
میں ہوں خانہ بدوش،شخصیت کی آوارگی تھی اور تحریر نماآوارگی بھی۔
وجود کے اندر اور وجود کے باہرکی ایسی آوارگی پہلے نہیں دیکھی گئی۔
زمین جاگ اٹھتی ہے،گائے جاہندوستان
اور ملاقات نئے دیوتاسے ہوجاتی ہے ، زمانہ نئے دیوتاکومشکل سے پہچان پایا
اور بنسری بجتی رہی،جسےسننے میں نصف صدی لگ گئ۔
یہ کتابیں اپنی دھرتی کی مٹی سے لکھی گئیں
یامٹی کی زبان میں لکھی گئیں۔
دھول کو مٹی بننے میں کتناوقت لگتاہے۔
راکھ سے لکھی گئی کتاب لاہور میں لکھی گئی مگر جو دھول دہلی میں اڑی تھی اس کارخ لاہور کی طرف بھی تھا۔
ستیارتھی لاہور بھی تو گئے تھے۔
کیاعجب راکھ سے لکھی گئی کتاب کاپیش لفظ ستیارتھی نے لکھ دیاہو۔
مجھے مٹی کے خواب آتے ہیں۔
اور میں مٹی اور راکھ کے درمیان فرق کرپاتا۔
ایک نوجوان کو ستیارتھی کی یادیں اور تحریریں حوالے کرتے ہوئے یہ کہاتھاکہ
دیکھئے نثر میں ثقافتی آوارگی کامفہوم کیاہے۔
آوارگی کتنی زندگیوں کابوجھ اٹھالیتی ہے۔
نوجوان خاموش تھا
اور اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔
اس چمک کو دیکھ کر سرمے کا خیال آیا۔
نوجوان سے دھول بہت دور تھی۔
اور میری نگاہ میں ستیارتھی کی گرد و غبار سے بڑی ہوئ کتابیں تھیں۔
ایک عرصہ بیت گیا تھا۔
دھول بدستور موجود تھی۔
اس آوارہ اور ثقافتی دھول کارخ بنارس کی طرف تھا۔
یہ میری آنکھوں نے ابتداہی میں دیکھ لیاتھا۔
شاید اس لیے کہ ستیارتھی غبار سے اٹے ہوئے وجود کے ساتھ وہاں پہنچ گئے تھے ۔
2 july 2023