دیباچہ ”غرة الکمال“ کا اردو ترجمہ

یہ تحریر 2906 مرتبہ دیکھی گئی

                مدت گذری محمد حسن عسکری نے دیباچہ ”غرة الکمال“ کا ذکر اپنے خطوط میں مجھ سے کیا تھا۔ اس وقت میرا دھیان دوسری چیزوں میں تھا اور کتاب بھی میری دسترس میں نہ تھی، اس لئے بات آئی گئی ہو گئی۔ اب خیال کرتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ اسی وقت ان کی بات پر توجہ کیوں نہ کی۔ہند ایرانی شعریات اور سبک ہندی کی شعریات کے لئے دیباچہ ”غرة الکمال“ نہ صرف نہایت اہم متن ہے، بلکہ بعض معاملات میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اگرعسکری صاحب کی زندگی میں ہی اس کتاب کو پڑھتا تو کئی مسائل پر ان سے مزیدروشنی حاصل ہو سکتی تھی ۔ موت نے انھیںفرصت نہ دی، ورنہ ان مراسلات کے کئی سال بعد جب دیباچہ میرے ہاتھ لگا اس وقت اگر عسکری صاحب حیات ہوتے تب بھی وہ کچھ خاص سن رسیدہ نہ ہوتے اور میں ان سے بہت کچھ سیکھ سکتا تھا، لیکن انھیں تو اللہ کا محب ہی نہیں بلکہ پیارا بھی ہونا تھا۔حیف دنیا سے سدھارا وہ خدا کا محبوب خواجہ میر درد کی طرح ان پر بھی صادق آتا ہے۔

                اس زمانے میں کلیات امیر خسرو کے دو ایڈیشن میرے پاس تھے۔دونوں نول کشوری تھے، ایک تو ۱۹۱۶ کا، جس کے مصحح حامد الٰہ آبادی تھے، اور دوسرا ۱۹۶۷ کا جسے انوار الحسن نے مدون کیا تھا۔ اس کلیات میں بھی ایک مختصر دیباچہ ہے، لیکن معنوی اعتبار سے وہ نہایت اہم ہے، کیونکہ اس میں خسرو نے اپنا نظریہ روانی شعر پیش کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شعر کے بارے میں دو اہم ترین شرطیں جو ہمارے کلاسیکی شعرا نے بتائی ہیں وہ ہیں (۱) کلام کا مر بوط ہونا اور (۲) کلام میں روانی ہونا۔ خسرو نے اپنے محولہ بالا دیباچے میں روانی کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ انھوں نے اسے شعر کی کم و بیش تمام خوبیوں کی اساس قرار دیا ہے۔یہ دیباچہ ۱۳۱۵ کالکھا ہوا ہے، یعنی دیباچہ”غرة الکمال“ کے کوئی بیس بائیس سال بعد کا، جس کی تاریخ تکمیل۶۹۳ ہجری (۱۲۹۳/۱۲۹۴) ہے۔اس کے بارے میں بار بار میرے جی میں اٹھتی تھی کہ اس کا ترجمہ کر لیا جائے،لیکن ایک تو زبان ادق، اس پر طرہ یہ کہ دونوں ایڈیشنوں میں متن مجھے مخدوش نظر آتا تھا، لہٰذا بات ٹلتی گئی۔یہ بات بہر حال واضح تھی کہ تمام پرانے اساتذہ نے، خواہ وہ دکنی ہوں یا دہلوی، اپنے کلام کی روانی پر فخر کیا ہے۔ چنانچہ یہ نتیجہ نکالنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ روانی کو ہماری کلاسیکی شعریات کے ایک بنیادی تصور کی حیثیت سے قائم کرنے میں امیر خسرو کے خیالات کو ضرور دخل رہا ہو گا۔

                مثال کے طور پر، خسرو نے ”غرة الکمال“ کی غزلوں کے بارے میں اپنے دیباچہ کلیات میں لکھا:

                وہ غزلیں جو لطیف پانی کی طرح رواں تر ہیں، اور جنھیں آتش طبع کے عالم بے پرواز سے   قوت بسیار ملی ہے، اور جو کہ مقام ہوائیت سے مرتبہ مائیت تک پہنچ گئی ہیں، وہ ”غرةالکمال“ سے ہیں۔

                پھر وہ ”بقیہ نقیہ“ اور اس کے بعد کی غزلوں کے بارے میں کہتے ہیں:

                مجھے امید ہے کہ ان غزل ہاے سوزاں سے کرہ آسمان بلند کو سراسر آتش پا کر ڈلوں، گویا کہ

                اس خرمن سے اٹھنے والا شعلہ سوزاں، خوشہ عطارد کو جا پکڑے، یہاں تک کہ اس کی روشنی روے فلک پر گرے، اور مشعلہ آفتاب کو پانی کر ڈالے۔

                 یعنی خسرو کی نظر میں ”روانی“ صفت ہے آگ اور پانی کی۔ یا یوں کہیں کہ ”روانی“ کی فطرت آگ اور پانی جیسی ہے۔ اور سب سے عمدہ روانی وہ ہے جو اس پانی میں ہوتی ہے جو مبدل بہ حرارت (یعنی ہوا) ہو کر پھر مبدل بہ آب ہو کر، اور پھر مبدل بہ ہوا ہو کر بالآخر مبدل بہ آ ب ہو گیا ہو۔ اس طرح ایک عنصر (نرم حرارت، تری، پانی) کی اپنی توانائی، دوسرے عنصر کی اپنی توانائی (سخت حرارت، تری، ہوا) کی طرف آزادی سے رواں ہوتی رہتی ہے۔اور ایک منزل وہ آتی ہے جب خود شعلہ پانی کی سی صفت حاصل کر لیتا ہے۔ موسیقی بنیادی طور پر تال اور وقفے کی پابند ہے مگر شعر کی روانی وقفے اور تال کے بندھنوں سے ماوراہے۔ وہ مختلف، بلکہ متخا لف عناصر کو یک جان کرتی اور ان کا استحالہ کرتی ہے۔ اب اس تصور کے سامنے نصرتی کے ”علی نامہ“ سے حسب ذیل اشعار پڑھئے تو معلوم ہو گا کہ خسرو کے تصور روانی نے ہمارے شعرا کو کتنی دور تک متاثر کیا ہے۔ نصرتی مناجات میں کہتے ہیں  

                خیالاں کو مجھ باﺅ کے اوج دے

                طبیعت کو دریا کے نت موج دے

                مری جیب کو سیف کر آبدار

                عنایت کی رکھ دم سوں نت تیز دھار

    اس کے بہت بعد شاکر ناجی نے نصرتی کے گھر سے بہت دور اپنے دیس، یعنی دلی میں بیٹھ کر کہا   

                روانی طبع کی دریا ستی کچھ کم نہیں ناجی

                بھریں پانی ہم ایسی جو کوئی لاوے غزل کہہ کے

  بہر حال ، خسرو کے دیباچہ ”کلیات“ اور دیباچہ ”غرةالکمال“ سے میں نے تھوڑا بہت حاصل کیا۔ لیکن اس کا ترجمہ اب بھی میری دسترس سے باہر تھا۔ اور یہ بات بھی میری نظر میں تھی کہ شبلی جیسے بڑے آدمی نے لکھا تھا کہ ان کے سامنے دیباچہ ”غرةالکمال“ کا جو نسخہ تھا اس کی نثر نہایت عسیر الفہم اور کتابت ”سخت غلط“ تھی۔ کئی سال بعد جب قاضی جمال حسین نے ”شب خون“ کے لئے ایک مضمون لکھا، بعنوان”دیباچہ غرةالکمال کی معنویت“ (مطبوعہ ”شب خون“، نمبر ۱۶۸)، اور اس میں خسرو کے نظریہ نظم و نثر سے کچھ بحث کی، تو مجھے شدت سے احساس ہوا کہ اس کتاب کا ترجمہ ہونا بہت ضروری ہے، ورنہ ہم لوگ اپنی شعریات کی ایک انتہائی اہم دستاویز سے محروم رہیں گے۔مثال کے طور پر ، نثر کے بارے میں خسرو نے لکھاہے :

                 نظم کو موزوں اور نثر کو ناموزوں کہتے ہیں، نیز اسے صحیح اور اسے سست کہتے ہیں۔ جب نظم کوبے ترتیب کریں تو نثر ہو جاتی ہے لیکن نظم کو جب تک درست نہ کریں نظم نہیں ہو سکتینثر کیا ہے؟ باہمی گفتگو کا معروف ذریعہ ہے اور خاص و عام میں رائج ہے۔ نثر طرز و روش ترک کرنے کو مقصود ٹھہراتی ہے پھر خود ہی ایک شاخ سے نکل کر دوسری شاخ سے پیوست ہو جاتی ہے۔ نثربے لگام تیز رفتارگھوڑاہے۔ مہار چھوڑی ہوئی اونٹنی ہے۔ تمام اصول و قواعد کے باوجود اس کی عبارت بے ربط اور بے ترتیب رہتی ہے (ترجمہ  ہٰذا ، صفحہ ۳۸ اور ۳۹)۔

                اس عبارت کو اگر غور سے نہ پڑھا جائے تو اس کی باریکی سمجھ میں نہ آئے گی اور یہ محض زور بیان کا اظہار معلوم ہو گی۔ امیر عنصر المعالی کاقول سب کو یاد ہو گا کہ نثر محکوم ہے اور نظم حاکم۔ لیکن خسرو کے نکات بالکل مختلف ہیں۔ ان کے خیال میں نظم کی خصوصیت ”ترتیب“ ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ نثر میں بھی ترتیب ہوتی ہے، یعنی جب تک الفاظ کو ایک خاص نحوی یا محاوراتی ترتیب سے جمع نہ کیا جائے، نثر وجود میں نہیں آسکتی۔ تو پھر نظم میں جس ترتیب کی بات خسرو نے یہاں کہی ہے وہ محض نحوی ترتیب نہیں ہو سکتی۔یہاں یقیناً ترتیب سے کچھ اس قسم کی صفت مراد ہے جو اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب الفاظ کو تخلیقی طور پر منظم کیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ نظم میں الجھاوا ہوتا ہے، اور نظم میں ربط و تسلسل۔ نثر کسی ایک راہ پر نہیں چلتی، اس میں بات سے بات نکلتی جاتی ہے اور کلام میں ارتکاز نہیں پیدا ہو سکتا۔ لہٰذا نثر بے لگام گھوڑا یا بے قابو دوڑتی ہوئی سانڈنی ہے۔ اس طرح نثر کی تعریف کے پردے میں خسرو ہمیںنظم کی بھی تعریف سمجھاتے ہیں کہ شعر میں لفظ کو لفظ سے اس طرح جوڑتے ہیں کہ سارا متن ایک واضح اور مکمل اکائی بن جاتا ہے۔ اس کے برخلاف، نثر میں اس طرح کا ایتلاف و انسجام نہیں ہوتا۔ اور یہ بکھراﺅ محض اس بات کا نتیجہ نہیں کہ نثر میں وزن و بحر کا کام نہیں ۔ بنیادی بات کلمات اور تصورات کو باہم یکجان کر نے کی ہے۔

                آگے چل کر خسرو نے شعر اور موسیقی کو ایک ہی طرح کافن قرار دیا ہے (ترجمہ ہٰذا، صفحہ ۳۹تا ۴۰)۔ اس بات سے اختلاف ممکن ہے، لیکن فوراً ہی وہ ایک نکتہ ایسا بیان کرتے ہیں جس کی طرف اس زمانے میں شاید ہی کسی کا دھیان گیا ہو، کہ شعر کی موسیقیت کسی راگ کی محتاج نہیں، لیکن راگ کو شعر کے ذریعہ معنوی زیبائش کی ضرورت رہتی ہے۔دیباچہ ”کلیات“ میں خسرو نے کہا تھا کہ شعر کی روانی آگ کی طرح ہے، اور ”آگ مرتبہ علو کی طرف میلان رکھتی ہے اور ہر گز اپنا سر پستی کی طرف نہیں لاتی“ لہٰذا وہ موسیقی کے زیر و بم سے بے نیاز ہے۔ اب دیباچہ ”غرة الکمال“ میں خسرو کہتے ہیں کہ نثر میں تو الجھاوا ہے اور اس میں بات میں سے بات نکلتی آتی ہے، لیکن نظم اس کے مقابلے میں بہت زیادہ منظم اور منسجم ہونے کی وجہ سے راگ کے نظام کی محتاج نہیں۔ یہ ایسے نکات ہیں جن تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مغربی تنقید کو واگنر (Wagner)اور والیری (Valery)کا انتظار کرنا پڑا۔

                یوں تو دیباچہ ”غرة الکمال“ میں امیر خسرو نے کئی اہم باتیں کہی ہیں، لیکن میری نظر میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہاں انھوں نے شعر کے دفاع میں ایسے نکات پیش کئے جن . کا جواب آج تک ممکن نہ ہو سکا۔ پہلی بات تو یہ کہ انھوں نے شعر کو ایک انوکھے استدلال کے ذریعہ تقدیس کا حامل قرار دیا، یعنی یہ کہ جو شعر کا منکر ہے وہ قرآن کا منکر ہے۔ انھوں نے کہا(ترجمہ ہٰذا صفحہ ۴۶):

                جب تری اور خشکی کے تمام علوم دریاے قرآن کے اندر محیط ہیں تو کسی شخص کا یہ کہنا کہ علم شعر حمید مجید کی کتاب میں نہیں ہے گویا قرآن کے قول سے منکر ہونا ہے، نعوذ باللہ من ذالک۔

                یہ استدلال عرب و عجم میں بے عدیل ہے، لیکن ممکن ہے کہ خسرو کے یہاں اس کا خیال سنسکرت سے آیا ہو، اس معنی میں، کہ سنسکرت شعریات کی رو سے ایک عینی ہستی ہے جو تمام موجود اور ممکن متون کی علامت، یا ترجمان، یا نمائندہ ہے۔ یہ نظریہ نویں صدی میں راج شیکھر نے پیش کیا تھا۔ آچاریہ راج شیکھر اس عینی ہستی کو ”کاویہ پرش“(Kavyapurusa) کا نام دیتے ہےں۔ لسان اورعلم کی دیوی سر سوتی اس ہستی ( کاویہ پرش) کی ماں ہے۔ اور یہ کاویہ پرش (جسے تمام شاعروں کا طریق عمل اور تمام موجود متون شعری کا مجموعہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور اس حیثیت سے اسے عینی متن (The Ideal Text)یا تمام تحریر (Writing)بھی کہہ سکتے ہیں)، ساری شعریات یعنی ”کاویہ ودیا“(Kavya Vidya)کا سرچشمہ یا استاد ہے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ سرسوتی جب دنیا کو چھوڑ کر برہم لوک کو سدھاریں تو اپنے بیٹے کاویہ پرش کو یہاں چھوڑ گئیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شعر دنیاوی شے ہے۔ کاویہ پرش کی بیوی کا نام ”ساہتیہ ودیا“ ہے، یعنی علم شعر اگر ایک طرف ویدوں کی مقدس دنیا سے الگ ہے تو تقدیس کا حامل بھی ہے۔

                اب خسرو کی دوسری بات سنئے(ترجمہ ہٰذا، صفحہ ۴۳ تا ۴۴):

                                لفظ اور معنی کے اعتبار سے حقیقت شعر اور حقیقت علم میں کوئی فرق نہیں ہے۔    جیسا کہ کلام مجید لفظ کے اعتبار سے خبر دیتا ہے، وہم لا یشعرون (اور ان کو خبر نہ تھی) کا مطلب ہے لا یعلمون۔   معنی کے اعتبار سے رسول علیہ السلام کی ایک حدیث تحریر کی صورت میں ہم تکپہنچی ہے ان من الشعر لحکمة(تحقیق بعض اشعار میں حکمت ہوتی ہے)۔ یہاں حکمتکے معنی ہیں علم۔ (یہ معنی) تمام قرآن متین اور واضح آیات میں بیان ہوئے ہیں، و من یوت الحکمة فقد اوتی خیراً کثیراً،یہاں حکمت کے معنی علم ہیں۔

پس اس صورت میں ”شاعر“ کے معنی ”عالم“ ہوں گے۔ سو کیسا شاعر جسے             عالم کہا جائے۔ قسم بخداوہ جو خودبڑا صاحب علم ہو ۔ ان احادیث سے کہ ”بعض اشعار میں     حکمت ہوتی ہے“ اور ”بعض بیان میں سحر ہوتا ہے“، بعض جادوگران سخن کا شجرہ نکل آیاجو سدرہ و طوبیٰ سے زیادہ بلندی تک پہنچتا ہے۔ اس اعتبار سے کہ بلبل ما زاغ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے شعر کو اصل اور حکمت کو اس کی فرع فرمایا ہے۔ یہ رتبہ قیاس میں کہاں آسکتا ہے کہ صریح آیات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جس کو حکمت دی گئی اس کو بڑی خیر کی چیز ملی۔ اور حضور خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میںحکمت کو شعر کی قسم میں سے فرمایا، نہ کہ شعر کوحکمت کی قسم میں سے فرمایا کیونکہ بعض اشعار میں حکمت ہوتی ہے نہ بر عکس، کہ حکمت میں شعر ہوتا ہے۔اس اعتبار سے شعر کا رتبہ حکمت سے زیادہ بلند ہوتا ہے اور حکمت شعر کے تہ دار مفہوم میں شامل ہوتی ہے۔لہٰذا شاعر کو حکیم کہا جا سکتا ہے اور حکیم کو شاعر نہیں کہا جا سکتا۔ (حدیث میں )ارشاد ہوا ہے کہ بیان میں سحر ہوتا ہے اور سحر میں بیان نہیں ہوتا، بنا بریں شاعر کو ساحر کہا جا سکتا ہے اورساحر کو شاعر نہیں کہا جا سکتا۔

                خسرو کے ذہن کی بلندی یہاں اس بات میں نہ تھی کہ انھوں نے کوئی نئی نظریاتی بنیاد قائم کی۔ بلکہ اس بات میں تھی کہ انھوں نے دو دنیاﺅں کا ادغام تجویز کیا، اور اس ادغام کی موافقت میں وہ ایک نیا استدلال لائے۔ جو عام اصول ان کے منقولہ بالا بیان میں مضمر ہے، وہ یہ ہے کہ شعر خود اپنی حیثیت میں علم کا خزانہ اور مسکن ہے۔ نواب صدیق حسن خان نے اپنے تذکرے ”شمع انجمن“ میں اس حدیث پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور انھوں نے ذرا محتاط نتیجہ نکالا ہے۔ خسرو نے جو تفسیر کی ہے وہ شعر کی علمیاتی نوعیت کو بڑے جوش و اعتماد کے ساتھ حدیث و قرآن کی روشنی میں ثابت کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ ہمارے فاضل مترجم یعنی ڈاکٹر لطیف اللہ صاحب نے بھی زیر نظر ترجمے میں نواب صدیق حسن خان ہی کی طرح محتاط رویہ اختیار کیا ہے، لیکن صدیق حسن خان کو بھی اس بات میں شک نہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہے کہ ”کچھ حکمتیں ایسی ہیں جن کی ماہیت شعر سے ہے۔ پس لازم آیا کہ جمیع افراد حکمت میںسے بعض ایسی ہوں جو شعر سے ہیںاور ابن ماجہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ کلمة الحکمت ضالة المومن حیثما و جدہا فہو احق بہا[کلمہ حکمت [حق] مومن کا کھویا ہوا مال ہے۔ وہ اسے جہاں پائے، اس پر اس کا حق ہے کہ اسے اپنا لے]کلمہ حق میں نظم و نثر دونوں شامل ہیں بعض شعر کلمہ حکمت ہیں اور کلمہ حکمت مومن کا کھویا ہوامال ہے، لہٰذا بعض شعر مومن کا کھویا ہوا مال ہیں۔“

                 میں نے یہ عبارت ”شمع انجمن“، از نواب صدیق حسن خان، بھوپال ، مطبع شاہجہانی، ۱۸۷۶، ص ص ۱۷ تا ۱۸ سے اخذ کی ہے۔ حضرت ابن ماجہ کی روایت کردہ حدیث کے ترجمے کی صحت کے لئے میں اپنے عزیز و محترم دوست (افسوس کہ انھیں مرحوم لکھنا پڑ رہا ہے) پروفیسر نثار احمد فاروقی کا ممنون احسان ہوں۔

                خسرو کے استدلال سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شعر کا سروکار عظیم تر حقائق اور بزرگ تر معاملات سے ہے۔ نری ”اطلاع“ فراہم کرنا شعر کا کام نہیں، شعر کا کام حکمت بیان کرنا اور حکمت سکھانا ہے۔ہماری شعریات میںمعنی آفرینی پر جو توجہ دی گئی ہے اس کی روشنی میں اس بات کو سمجھنا چاہیئے کہ خسرو نے اپنی اولیات میں جس چیز پر سب سے زیادہ فخر کیا ہے وہ ایک خاص قسم کا ایہام ہے، اور وہ ایہام کو (ہمارے جدید اردو اساتذہ ادب کے بر عکس) معنی آفرینی سے براہ راست متعلق قرار دیتے ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں :

                بندے نے اپنی کلک تیز سے معنی کے بال کے سرے کو اس طرح چیرا ہے کہ ایک بال کے شگاف  سے سات معنی حاصل ہوئے خسرو کی طبع فکر نے ایسا ایہام ایجاد کیاجو آئینے سے زیادہ پسندیدہ ہے کیونکہ آئینے میں ایک صورت، ایک خیال سے زیادہ نظر نہیں آتی، لیکن یہ ایسا آئینہ ہے کہ اگر تم ایک چہرہ اس کے روبرو لاﺅ تو یہ سات درست اور روشن خیال دکھاتا ہے۔میںنے اس کا نام ”ایہام ذوالوجوہ“ رکھا ہے (ترجمہ ہٰذا، ص ص ۱۰۲ تا ۱۰۳)۔

                لہٰذا خسرو کی نظر میں ایک سے زیادہ معنی رکھنے والے کلام کی خاص اہمیت ہے۔ ہمارے یہاں اٹھارویں صدی تک، اور اٹھارویں صدی میں خاص طور پر، ایہام کو پسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا۔ اس میں مجھے کچھ بھی شک نہیں کہ ایہام کی مقبولیت ہمارے یہاں دو دجہوں سے ہوئی۔ ایک تو سنسکرت کی شعریات و روایات کا اثر، اور دوسری امیر خسرو کے تصورات، ان دونوں نے مل کر ہماری کلاسیکی شعریات کے کئی بنیادی اصولوں کو قائم کیا۔ پھر اس میں حیرت کی کچھ بات نہیں جب اردو کے سب سے پہلے باقاعدہ شاعر فخر دین نظامی نے اپنی مثنوی (تاریخ تحریر۱۴۲۱ تا ۱۴۳۴) میں اپنی شعریات میں حسب ذیل نکات کو شامل کیا:

                (۱) ایہام

                دو آرت سبد جس کوت میں نہ ہوئے

                دو آرت سبد باج ریجھے نہ کوئے

(”کدم راﺅ پدم راﺅ“، مرتبہ جمیل جالبی، ص ۱۳۳)

    (جس شعر میں دو معنی رکھنے والے لفظ نہ ہوں، تو دو معنی والے الفاظ کے بغیر کوئی راغب نہیں ہوتا۔)

                (۲) علم

                دھنور بید رت بھید ست بھید دھات

                پرس بھید پر کروں ہوں ہیم جات

(”کدم راﺅ پدم راﺅ“، مرتبہ جمیل جالبی، ص ۱۳۳)

       (دھنور بید(؟)،اسرار عاشق و معشوق، اسرار حقیقت، اسرار انسان، یہ سب [خام] دھاتیں ہیں۔ میں انھیں سونا بنا دیتا ہوں۔)

                (۳) نغز گوئی

                نظامی کہن ہار جس یار ہوئے

                سنن ہار سن نغز گفتار ہوئے

(”کدم راﺅ پدم راﺅ“، مرتبہ جمیل جالبی، ص ۶۹)

  (اے نظامی، جب شاعر دوست بن جائے تو [اس کا کلام]سننے والا سن سن کر نغز گفتار ہو جاتا ہے۔)

                یہ تینوں نکات دیباچہ ”غرة الکمال“ سے مستنبط ہو سکتے ہیں۔ ایہام کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔بقیہ دو کے لئے یہی بتانا کافی ہے کہ خسرو نے دیباچہ ”غرة الکمال“ میں لکھا ہے (ترجمہ ہٰذا، صفحہ ۶۸ تا ۶۹):

                شعر میں دانائی پانچ ذرائع سے کار فرما ہوتی ہے۔ (۱) فاضلانہ۔ (۲) حکیمانہ۔ (۳) نیک طبعانہ۔

                (۴) عاشقانہ۔ (۵) شاعرانہ۔     دانش شاعرانہ یہ ہے کہ شاعرفاضلانہ، حکیمانہ،

                نیکو طبعانہ، اور عاشقانہ سب طرزوں کو ان کے حق کے مطابق جانتا ہو۔

                اسی اعتبار سے امیر خسرو نے نقد شعر اور فہم شعر کے بارے میں بھی اصول مقرر کیا کہ یہ ہر شخص کے بس کا روگ نہیں ۔ ”کلیات “ کے دیباچے میں انھوں نے ”صاحب طبع“ اور ”طبع وقاد“ کی صفت شاعر اور قاری دونوں کے لئے استعمال کی تھی۔ یعنی خسرو کی نظر میں شعر گوئی اور شعر فہمی دونوں کے لئے مناسبت طبع اور مناسب مزاج، دونوں مساوی درجے میں ضروری ہیں۔”وقاد“ کے بہت سے معنی ہیں: روشن، آتشیں، پھرتیلا، حرارت یافتہ، زیرک، در گذرندہ در امور،لہٰذا ذہین اور دراک۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ جو روشن کرے وہ بھی وقاد ہے اور جو روشن ہو وہ بھی وقاد ہے۔شاعر کی طبع وقاد اس سے شعر کہلاتی ہے اور قاری کی طبع وقاد اسے اس بات پر مطلع کرتی ہے کہ شاعر کیا کر رہا ہے۔ مملکت شعر میں شاعر اور قاری دونوں ایک ہی جگہ ہیں۔ اس نظریے ، اور سنسکرت نظریہ ساز ابھینو گپت (Abhinavagupta)کے نظریہ سہردے (صاحب دل) قاری میں کتنی مماثلت ہے، یہ کہنا شاید ضروری نہ ہو۔ ابھینو گپت نے سہردے قاری کی تعریف ہی یہی کی ہے کہ وہ ایسا دل رکھتا ہے جس کی قوت ادراک نہایت تیز ہو۔

                دیباچہ ”غرةالکمال“ میں امیر خسرو نے قاری کے لئے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اعلیٰ صلاحیت کاحامل ہو، اور انھوں نے نا اہلوں کی شدید مذمت کی ہے (ترجمہ ہٰذا، صفحہ ۱۲۷):

                بہت سے کم مایہ لوگ ہیں[جن] کی تصنیفی صلاحیت ناقص اور بہت کم ہوتی ہے۔ یہ لوگ(صاحب کمال پر) اعتراض کرنے اور اس کی غلطی پکڑنے والوں کے گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں تا کہ انھیں بھی سخنور خیال کیا جائے۔ اگر(ان کی بے تکی باتوں پر)غور کیا جائے تو وہ حماقت پر مبنی نظر آئیں گی نہ کہ فصاحت پر۔

                اسی بات کے دوسرے پہلو کو امیر خسرو اس دیباچے میں یوں بیان کر چکے ہیں (ترجمہ ہٰذا، صفحہ ۶۲):

                اگر تم [بچے]کے ہاتھ میں نظامی کی ”پنج گنج“ تھما دو تو وہ سواے صورت کے اور کیا دیکھے گا۔وجہ ظاہر ہے کہ اس بچے کی عقل درجہ کمال تک نہیں پہنچیلیکن وہ حضرات جو کامل عقل رکھتے ہیں اور فضل الٰہی بھی ان کے شامل حال ہے، وہ ”پنج گنج“ سے دریافت کر لیتے ہیں جو کچھ کہ وہ دریافت کرتے ہیں۔

                اس دیباچے کی کئی اور باتوں کی طرف ہمارے فاضل مترجم نے اپنے پیش لفظ میں اشارہ کر دیا ہے۔ میں صرف ایک نکتہ اور بیان کر کے اپنی بات ختم کر وں گا۔ہم جانتے ہیں کہ بر صغیر کے علمی حلقوں میں مدت سے یہ بات عام ہے کہ ہندوستان کے فارسی گو، خواہ وہ ہندی الاصل ہوں خواہ ایرانی النسل، زبان کی درستی اور فصاحت کے باب میں ”خالص ایرانیوں“ کے برابر اور ان کی طرح لائق اعتبار و استناد نہیں ہیں۔ اس غلط رو ئیے کا نقصان خسرو کوبھی اٹھانا پڑا اور ان کی نظم و نثر کو اس تفصیل اور گہرائی سے نہیں پڑھا گیا جس کی وہ مستحق تھی۔ اور نہ خسرو کو بالاعلان ایرانی شعرا کے برابر ٹھہرایا گیا، بہتر ٹھہرانا تو دور کی بات ہے۔ ہمارے فاضل مترجم نے اپنے پیش لفظ میں درست لکھا ہے کہ اگر خسرو کی شاعری پر تھوڑی بہت توجہ کی بھی گئی تو ان کی نثر، اور خاص کر دیباچہ ”غرةالکمال“ کو بالکل ہی ہاتھ نہ لگا یا گیا۔دوسری طرف یہ بھی ہوا کہ جب خسرو جیسے بڑے شاعر کی پوری منزلت نہ ہوئی تو ان سے کم تر درجے کے شعرا کو کون پو چھتا ۔ غالب نے تو صائب جیسے ایرانی کو بھی مسلم الثبوت ماننے سے انکار کردیا کیونکہ صائب ہر چند ”ایرانی نژاد“ تھے، لیکن ”وارد شاہجہاں آباد“ تھے۔ایران کی برتری کے اس تصور میں اپنے وطن کی توہین اور حب الوطنی کی تردید بھی پنہاں تھی لیکن اس طرف کسی کا دھیان نہ گیا۔

                ان تعصبات کے پیچھے یہ غلط تصور تھا کہ کوئی غیر شخص، خواہ وہ کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو، لسانی مہارت میں ”اہل زبان“ کی برابری نہیں کر سکتا۔خسرو کے زمانے میں ہندوستان میں کم سے کم تین غیر زبانوں کی تہذیب رائج تھی، یعنی فارسی، ترکی، اور عربی۔ شعر گوئی اور زبان فہمی کے سیاق و سباق میں خسرو جگہ جگہ ان زبانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ خسرو کا زمانہ آتے آتے عرب اور ایرانی دنیا میں دور دور تک پھیل چکے تھے، اور لسانی مہارت، ”اہل زبان“، ”عجم“ وغیرہ کی بحثیں ہو رہی تھیں۔ اگر ایرانیوں کو اپنی زبان پر بے حد غرور تھا توعربوں نے بطور خاص اپنی زبان کے بار ے میں یہ خیال رائج کر رکھا تھا کہ ”عجم“ ہماری زبان کے مکمل ماہر نہیں ہو سکتے۔ ظاہر ہے کہ فارسی کی حد تک خسرو کو بھی یہ مسئلہ طے کرنا تھا کہ کیا ہندی الاصل شخص کو لسان پارسی میں استادی کا درجہ حاصل ہو سکتا ہے؟ خسرو کے دل میں حب الوطن کا جذبہ بھی موج زن تھا اور وہ اسی دیباچے میں اپنے ہندوستانی ہونے کا ذکر نہایت فخر کے ساتھ کرتے ہیں(ترجمہ ہٰذا، صفحہ ۱۱۲)، لہٰذا انھیں اس معاملے کا تصفیہ کرنے میں کچھ مشکل نہ ہوئی۔ دیباچے (ترجمہ ہٰذا، صفحہ ۵۶ تا۵۹) میں انھوں نے صاف صاف لکھا کہ سواد ہند، اور بالخصوص دہلی کے شعرا ”تمام عالم کے نیک طبعوں سے بہتر ہیں“۔ انھوں نے مزید کہا:

                                وہ صاحب انشا جس نے ہندوستان کے شہروں خصوصاً دہلی میں نشو نما پائی ہے، اہل انشاکی مستقل ہم نشینی کے بغیر، ہر طریقے پر جو اہل انشا بولتے ہیں، بات کہہ سکتا ہے اور سن بھی سکتا ہے اور نظم و نثر میں تصرف کر سکتا ہے ہمارے بہت سے لوگوں نے عرب کا سفر کئے بغیر عربی زبان کو ایسی فصاحت    کے ساتھ حاصل کیا ہے کہ عرب کے اہل بلاغت ان کی زباں دانی سے خوف زدہ ہو گئے اور انھیں اپنی زبان میںفصاحت و بلاغت کے کمال کے باوجود اتنا یارا نہ تھا کہ ہماری فارسی پر عبور حاصل کرتے طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمیں سب زبانوں میں شعر کہنے کا ملکہ حاصل ہے اور دوسروںمیں سے کسی کو ہماری زبان میں شعر کہنے کا یارا نہیں ہے ان عقلی دلائل کے مطابق جو اوپر بیان کئے گئے ہیں، دہلی کے نیک طبعوں کی طبیعت دنیا کے تمام طباعوں پر فائق ہے۔

                ذرا ملاحظہ کیجئے، کہاں خود اعتمادی کا یہ وفور و جوش اور کہاں غالب کایہ کہناکہ اہل ہند میں فیضی بھی مسلم الثبوت نہیں، اور خان آرزو کے علی الرغم امام بخش صہبائی کی”قول فیصل“ لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ خان آرزو نے شیخ علی حزیں پر جو اعتراضات کئے تھے وہ غلط تھے۔ اورآگے آئیے تو خود غالب کے بارے میں علامہ شبلی کا یہ قول ذہن میں آتا ہے کہ فارسی الفاظ و روز مرہ کے لئے غالب کا کلام سند نہیں۔ ذرا اور قریب آ ئیں تو ہمارے زمانے میں وحید مرزا جیسے خسرو شناس نے کہا کہ خمسہ خسرو کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ خمسہ نظامی کی نہایت عمدہ نقل ہے۔ اور اگر چہ خسرو کہیں کہیں نظامی سے بڑھ گئے ہیں لیکن نقل، نقل ہی ہے، اصل کا درجہ نہیں حاصل کر سکتی۔اس فکر کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ سبک ہندی کی فارسی شاعری جس میں سینکڑوں ہندیوں نے ایجاد و اختراع کے نئے نئے گل تراشے، خود ہم اہل ہند میں اتنی بے توقیر ٹھہری کہ علامہ شبلی نے اس بات پر افسوس کیا کہ ایک وقت میں لوگوں کا مذاق اتنا بگڑ گیا تھا کہ لوگ بیدل اور ناصر علی سر ہندی کے کلام پر سر دھنتے تھے۔کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ اگر ہم نے امیر خسرو کے قول و فعل کی قدر کی ہوتی تو ایسے فیصلے نہ صادر ہوئے ہوتے؟

                ایک مدت سے میری تمنا تھی کہ دیباچہ ”غرة الکمال“ کا ترجمہ ہو جاتا، لیکن کوئی مناسب شخص ذہن میں آتا نہ تھا جو اس کار مشکل کو بخوبی کر سکے۔ کبھی کبھی خیال آیا کہ کیوں نہ میں ہی اس بھاری پتھر کر اپنے ناتواں ہاتھوں سے اٹھانے کی کوشش کروں۔ لیکن ایک تو فرصت کی کمی، پھر فارسی انتہائی ادق(اگر چہ پر لطف)، اور جو مطبوعہ متن میرے سامنے تھا اس کے بارے میں جگہ جگہ شک گذرتا کہ متن درست نہیں ہے، یا شاید میں ہی اسے حل کرنے سے قاصر ہوں۔ ایسے عالم میں جب محبی و مکرمی اسلم فرخی نے مجھے اطلاع دی کہ ہمارے دوست ڈاکٹر لطیف اللہ اس کار اہم کو انجام دے رہے ہیں تو دل بہت خوش ہوا کہ حبذا ایسے لوگ ابھی موجود ہیں۔پھر مجھے حکم دیا گیا کہ اس ترجمے پر پیش لفظ بھی لکھوں۔ ہر چند کہ میں اس اکرام کا مستحق نہیں، لیکن امیر خسرو کے نام اور ڈاکٹر لطیف اللہ کے کام کے ساتھ میرا نام بھی ملحق ہو جائے، اس لالچ نے مجھے ہامی بھرنے پر مجبور کردیا۔

                زیر نظرترجمے کے بارے میں میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی مختلف تحریروں، اور خاص کر ”اردو کا ابتدائی زمانہ“ میں دیباچہ ”غرة الکمال“ کی عبارتیں ترجمہ کر کے استعمال کی ہیں، لیکن موجودہ مضمون میں دیباچے کے تمام اقتباسات میں نے ڈاکٹر لطیف اللہ کے ترجمے سے اخذ کئے ہیں۔ یعنی میں نے ڈاکٹر لطیف اللہ کے ترجمے کو اپنے ترجمے پر ترجیح دی ہے۔ ایسا نہیں کہ مجھے کہیں کوئی اختلاف نہیں، لیکن مجموعی حیثیت سے یہ ترجمہ اس قدر درست اور شگفتہ ہے کہ اس سے بہتر کا تصور ممکن نہ تھا۔ دوسری بات یہ کہ میں نے اس ترجمے کو اسی لطف کے ساتھ پڑھا جس لطف کے ساتھ میں امیر خسرو کا اصل دیباچہ پڑھا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مترجم کو جزاے خیر دے اور ان کی اس سعی کو کامیاب اور مقبول بنائے تا کہ امیر خسرو کا کچھ حق ہم ادا کر سکیں۔

٭٭٭