دہلی کاموسم ابر آلود ہے۔ لاہور کاموسم کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے

یہ تحریر 298 مرتبہ دیکھی گئی

دہلی کاموسم ابر آلود ہے۔ لاہور کاموسم کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے
(1)

ہفتے کو لمز کے زیر اہتمام علمی نثر کے موضوع پر مذاکرہ تھا۔مجھے آن لائن اظہار خیال کاموقع ملا۔پروفیسر ناصر عباس نیر نے استقبالیہ گفتگو میں علمی نثر کے تعلق سے چند بنیادی معروضات پیش کیے۔مجھے ایک ماہ قبل ہی اس موضوع کے تعلق سے بتادیاگیاتھا۔میری دلچسپی کایہ عالم تھاکہ 18فروری کو18مارچ سمجھ لیا۔ایسا پہلی بار ہواتھا کہ ایک ماہ بعد کی تاریخ وقت سے پہلے آگئی یاسمجھ لی گئی۔ایسا اس وقت ہوتاہے جب موضوع ہر طرف سے گھیر لے اور یہ احساس ہو کہ دیگر علمی کاموں کے ساتھ موضوع کاحق ادا کر نامشکل ہے۔یہ کوئی مغالطہ نہیں تھابلکہ میری نظر میں وقت کا ایک خوشگوار عمل اور کردار تھا۔مجھے یہ محسوس ہورہا تھا کہ 18مارچ کی تاریخ قریب آرہی ہے یا قریب آگئی ہے۔چنانچہ تاریخ تو قریب آگئی تھی۔مہینے کافرق تھا۔مہینے کافرق دن کافرق تو نہیں ہوتا۔اتنا ضرور ہوتاہے کہ کوئی مہینہ ایک دن کا مقابلہ نہیں کر پاتااور ایک دن پورے مہینے کو محیط ہو جاتاہے۔یہ دن کوئی وقت بھی ہوتاہے۔دن کے 11بجے یااس سے کچھ پہلے یااس کے کچھ بعد کاوقت یوں بھی نہ صبح کاہوتاہے اور نہ ہی چڑھتے ہوئے دن کا۔اکثر اوقات یہ وقت گفتگوکے موضوع کوکسی ایسی سمت میں روانہ کر دیتاہے جس کی فضا بہت شفاف نہیں ہوتی۔تاریخ 18مارچ تھی اور مجھے اس تاریخ سے شدت سے انتظار تھا۔علمی نثر کے موضوع پر اظہار خیال کرنا ایک معنی میں اپنی علمی تربیت کا سامان بھی کر ناہے۔اس سیاق میں یگانہ کاشعر یاد آتاہے
علم کیاعلم کی حقیقت کیا جو بھی جس کے گمان میں آئی
علمی نثر گمان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔یہ اظہار کاوہ رسمی انداز ہے جو جذبات سے علاقہ نہیں رکھتا۔اپنی پسند اور نا پسند کابھی کوئی جواز تلاش کر ناہوتاہے۔تخلیقی ادب پڑھنے والے اور لکھنے والے عام طور پر علمی نثر کی رسمیات سے واقفیت کے باوجود معروضیت اور شواہد سے وہ گہرا تعلق قائم نہیں کرپاتے جو اس طرح کی علمی سرگرمی کے لیے ضروری ہیں۔وقفے وقفے سے علمی نثر کے اصول اور تقاضوں کاذکر یونیور سٹی میں تو لازماً ضروری ہے۔علمی نثر کے مختلف اسالیب اور موضوعاتی حوالے ہیں۔عملی سطح پر ان مسائل اور موضوعات سے ہمارارشتہ جس نوعیت کاہوتاہے اس میں نظریاتی مسائل پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔لیکن ان کی موجودگی عملی سطح پر کسی نہ کسی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔
18تاریخ کی صبح جب آنکھ میری کھلی تو موسم ابر آلود تھا۔رات میں ہلکی بارش بھی ہوئی تھی۔زمین نم تھی مگر ایک موسم مستقل طور پر ہم سفر تھا جسے وجود کاموسم کہناچاہیے۔کبھی کبھی باہر کاموسم اندر کے موسم سے ہم آہنگ ہوجاتاہے۔11:30پرگفتگو کاآغاز کرناتھا۔ میں نے اس موضوع کے تعلق سے جو تیاری کی تھی وہ نوٹس کی شکل میں میرے سامنے تھی۔ سوچاتھا کہ نوٹس کو دیکھوں گااورگفتگو کاسلسلہ جاری رہے گا۔اتنی تحریریں مطالعے میں آگئی تھیں کہ مجھے قاعدے سے مضمون قلم بند کر لیناچاہیے تھا۔سچ تو یہ ہے کہ نوٹس بھی مضمون ہی کی شکل اختیار کر چکے تھے۔کچھ حوالے ایسے بھی تھے جو علمی نثر کے تقاضے کے منافی تھے۔اس سلسلے میں ایک سیاق نو آبادیاتی فکر کاتھاجس نے نثر کو سادہ او ر شفاف بنانے کی راہ کو روشن کیا۔آج بھی ہم اپنے مشرقی تخیل کو ان تحریروں میں تلاش کرنے جن میں مشکل پسندی ہے اور جنہیں مسجع اور مقفع نثر کانمونہ کہنا چاہیے۔نثر جیسے جیسے رواں اور صاف ہوتی گئی،مشرقی تخیل کی جگہ مغربی تعقل نے لے لی۔آخرکوئی وجہ تو ہے کہ باغ و بہار کو شمس الرحمن فاروقی نے بطور داستان دیکھنا قبول نہ کیا۔گویایہ وہ نثر ہے جسے ایک خاص فوری ضرورت کے تحت بنایاگیا۔اس کے پیچھے ایک اجنڈاتھاجو محض ادبی نہیں تھا۔علمی نثر نے فکرواظہار کی سطح پر ہماری تربیت کی ہے اور کیا میں یہ کہہ سکتاہوں کہ اس ضمن میں ہم نے کچھ کھویانہیں ہے۔یہ خیالات دھیرے دھیرے گفتگو کو کسی اور سمت لے جانا چاہتے تھے۔مگر میری ضرورت تو علمی نثر کے اصول اور رسمیات پر غیر جذباتی انداز کی گفتگو تھی۔11:30کاعمل تھا اور اب میں نے آن لائن ورک شاپ کو جوائن کرلیاتھا۔پروفیسر ناصر عباس نیر صاحب کی گفتگو ختم ہوئی اور مجھے انہوں نے اظہار خیا ل کی دعوت دی۔چند جملے تھوڑے فرق کے ساتھ میں یہاں درج کرتاہوں جو اس موقع پر ابتدامیں طلبا کے درمیان تخلیق پا گئے تھے۔
’آج دہلی کاموسم ابر آلود ہے۔لاہور کاموسم دہلی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔‘
پہلے جملے میں ایک اطلاع ہے مگر دوسر اجملہ اطلاع ہونے کے باوجود کچھ بے یقینی کی کیفیت بھی لیے ہوئے ہے۔دہلی کاابر آلود موسم لاہور کے موسم کے ساتھ تاریخ میں پہلے بھی اپنی یکسانیت اور یک جہتی کااظہار کرتارہاہوگا۔میں نے لاہور کو دیکھانہیں۔لاہور میرے لیے خواب کی طرح ضرورہے لیکن جتناکچھ تحریروں،آنکھوں اور باتوں میں دیکھا ہے وہ کچھ کم نہیں۔دہلی کو جتنادیکھاہے یہ نہیں کہہ سکتاکہ اسے بہت زیادہ دیکھناکہاجاسکتا ہے۔کتنی تاریخی عمارتیں،مقبرے اور ماضی کے نشانات ہیں جنہیں دیکھناباقی ہے۔کبھی کبھی محسوس ہوتاہے کہ ماضی کی طرف ہمارامیلان ہمیشہ ایک ہی طرح کاہوتاہے۔فرق یہ ہے کہ کبھی حال ماضی کو دیکھنے کاکوئی ایسازاویہ فراہم کر دیتاہے جو حال کو بھی ماضی کی طرف روانہ کرتاہوادکھائی دیتاہے۔پرانی اشیاجن کے لیے بہت خوشگوار لمحات کی حصولیابی کاوسیلہ نہیں ہے انہیں یہ کون سمجھائے کہ پرانی اشیااپنی فطرت کے لحاظ سے نہ صرف افسردہ ہیں بلکہ دیکھنے والے کو کسی اور نظرسے دیکھنے کاحوصلہ دیتی ہیں۔مجید امجد کی نظم مقبرہئ جہانگیر جب پہلی بار پڑھی تھی تو میرے احساسات کچھ اس سے مختلف نہیں تھے۔گفتگو علمی نثر کی اخلاقیات پر کچھ دیر کے لیے جاری رہی۔میری طرف کچھ اندھیراتھامگر اس طرف کی فضابہت روشن تھی۔یہ اندھیرامیری ذات کاتھااور اس تخلیقی نثر کابھی جس کی گرفت سے میں بہت مشکل سے خود کو نکال پاتاہوں۔لیکن اس بات کااطمینان رہتاہے کہ مختلف اسالیب کے تقاضے ایک دم سے اور فور ی طورپر فکرواحساس کی دنیاکوکسی صنف اور اسلوب کے مطابق کر دیتے ہیں۔ چنانچہ لمز کے طالب علموں کے درمیان یہ گفتگو میرے لیے یادگار تجربے کی طرح تھی۔

(2)


دوسرے دن 19مارچ کو معمول کے مطابق میں بک بازار گیا مگر بک بازار کچھ خالی خالی اور اداس نظرآیا۔بارش دوسرے دن تو نہیں ہوئی مگر علمی نثر پر گفتگو کے درمیان کاموسم ختم نہیں ہواتھا۔دن کے چند اور رات کے کچھ گھنٹے ہی تو گزرے تھے۔دھوپ نکلی اور پھر غائب ہوگئی۔یہ دھوپ علمی نثر کے اصول اور رسمیات کی یاد تازہ کر رہی تھی۔مگر ایک دم سے دھوپ غائب ہوجاتی اور پھروہی ہوتاکہ دہلی اور لاہو رکاموسم ابر آلود ہوجاتا۔انسانوں کی بھیڑ اداسی کو دور دراز علاقے میں رخصت کر دیتی ہے یاہمیں محسوس ہوتاہے کہ اداسی ہمہ ہمی کے درمیان بھی موجود ہوتی ہے۔اس سے پہلے کااتوار میرے لیے کوئی اور دن تھا۔اس لیے کہ میں شہر میں نہیں تھا۔وطن کاشہر فٹ پات پر جن کتابوں کو بکھیرتا اور سجاتاہے ان میں میری دلچسپی نہیں ہے۔کتابیں ہیں کہ آتی جاتی ہیں اور مطالعہ کی رفتار سست ہوتی جاتی ہے۔ یہ جملہ ذہن میں بہت پہلے آیاتھامگر آج اسے قلم بند کرنے کا موقع ملاہے۔ کاش ایسا ہوتاکہ مطالعہ کی رفتار سست ہو جاتی اور جس طرح کتابوں کے گھر تک آنے کاسلسلہ کچھ کمزور ساہو جاتا۔جہاں مطالعہ کی رفتار سست ہوتی ہے وہ بھی مطالعہ کی ایک ضرورت ہے۔ہمیں یہ لگتاہے کہ رفتار سست ہوگئی ہے۔جن آنکھوں سے کتابوں کے سیاہ حروف اور الفاظ ہم دیکھتے ہیں ان کارخ کتابوں سے ہٹ کر کسی اور طرف بھی ہوجاتاہے۔اس طرف کو شاعری میں کئی ناموں سے پکاراگیا۔لیکن کیاکیاجائے یہ بھی سچ ہے کہ جہاں مطالعے کی عادت ہی نہیں ہے وہاں مطالعہ کی رفتار سست بھی کہاں ہوگی۔کاش ایسا ہوتا کہ کوئی کسی کے لیے پڑھ دیتا۔ اس سے علمی اور تہذیبی زندگی کتنی سنبھل سی جاتی۔ آج کابک بازار کتابوں سے بھراہواتھا۔ کتب فروشوں کے چہرے کہیں کہیں بشاش تھے مگر انہیں اب بھی خریداروں کاانتظار تھا۔ بک بازار میں ایک ہی راستہ اندر داخل ہونے کاہے اور نکلنے کابھی۔جو راستہ اندر جاتاہے وہ مختلف راستوں کو بناتانہیں ہے۔کتاب پھیلانے اور بیچنے والے کچھ اس طرح چند گھنٹوں کامستقر تیار کرتے ہیں کہ کئی راستے بن جاتے ہیں اور شام ہوتے ہی یہ راستے ایک چھوٹے سے سنسان میدان میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔کیااس طرح بھی تاریخ میں کبھی راستے بنے اور ختم ہوئے ہوں گے۔کتابیں راستے کو تنگ کر نے کے بجائے کشادہ کر دیتی ہیں۔یہ کشادگی وقت کی ہے،ذہن کی ہے یاان قدموں کی تنگ راستوں میں بھی کشادگی کااحساس ہوتاہے۔آج تو یوں بھی یہ راستے منتظر تھے۔میرے قدموں کی رفتار کچھ تیز تھی اور شانے،شانے سے ٹکراتے نہیں تھے۔پھر میں نے گھڑی کی طرف دیکھا کہ کتنا بج رہاہے۔سناٹے کو دیکھ کر محسوس ہواکہ مجھے آنے میں دیر ہو گئی ہے اور وقت کہیں دور نکل گیاہے۔ہر لمحہ بک بازار کی اداسی کااحساس پریشان کر رہاتھا۔کیاپتہ جسے میں نے اداسی سمجھاہے وہ اس کی طمانیت ہو۔دیکھنے والی نظر کی اداسی ہرشئے میں اداسی کو دیکھ لیتی ہے۔آج تھکن کااحساس بھی کچھ زیادہ ہوا۔بھیڑ اور شور کے درمیان کی زندگی کتنی تواناہوتی ہے۔ایک ہی مشن پر نکلے ہوئے مختلف عمروں کے لوگ جس اجتماعی زندگی کامنظرنامہ پیش کرتے ہیں اس کی اداسی بھی اجتماعی آہنگ اختیار کرلیتی ہے۔
شور ساکرتے جاتے تھے ہم بات کی کس کو طاقت تھی
یہ بھی زندگی کاایک روشن پہلو ہے۔نہ بھیڑ تھی اور نہ شور تھا۔مگر شور کی اداسی کوکس نے دیکھااور محسوس کیاہے۔آج کی اداسی میں جو شور تھا اس کو محسوس کرنے کے لیے مجھے کچھ اور وقت درکار تھا۔وقت اتناگزر چکاتھاکہ شاید ہی کتاب کاکوئی پھیلاہواسلسلہ اورحلقہ نگاہ سے اوجھل رہ گیاہو۔جب لوگ زیادہ ہوتے ہیں تو اپنے ذوق اور ضرورت کی کتابیں زیادہ ملتی ہیں۔یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے۔
جامعہ کی ایک شام
21/03/2023