دنداں نامہ

یہ تحریر 1656 مرتبہ دیکھی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچپن میں جب میرے دودھ کے دانت گرے تھے،تب میں ایک بچہ تھا ۔

کتنا بے کیف جملہ ہے۔اس کے مقابلے میں شفیق الرحمن کا یہ جملہ خالص دودھ سے لکھنے کے لائق ہے :

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب روفی کے دانت پر بجلی گری تھی۔

کسی تحریر کا آغاز ایسا ہی چونکا دینے والا ہونا چاہیے کہ قاری پر بجلی بن کر گرے۔شفیق الرحمن کا ذکر آتا ہے تو مجھے اپنی ایک ہم سن یاد آ جاتی ہے۔وہ جہاں کہیں بھی ہو اور اس کی زلفیں جس کسی کے بازو پر پریشان ہوتی ہوں، میں اس کی درازئ زلف وعمر کے لیے دعاگو ہوں لیکن اسے ‘ ہم سن ‘ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اب میں بھی خاصا عمر رسیدہ ہو گیا ہوں۔اب یہ اس کی سادگی تھی یا ستم ظریفی کہ وہ مجھے میرے نام اور کام کی رعایت سے ( نام : وحید الرحمن،کام : مزاح نگاری ) شفیق الرحمن کا فرزند خیال کرتی تھی۔ ناموں کی اپنی ” آرٹس ” ہوتی ہے۔اتفاق سے میری اہلیہ کے برادر خورد کا اسم گرامی بھی یہی ہے۔۔۔خیر ، میرے عزیزو ، میں یہ کہہ رہا تھا کہ بچپن میں جب میرے دودھ کے دانت گرے تھے،تب میں ایک بچہ تھا۔۔۔لیکن اب کےجو میرے دانت گرے ہیں ،وہ دودھ کے نہیں ، ” دودھ پتی ” کے تھے۔میٹھی چائے نے میرے دانت کھٹے کردیے۔ایک دو نہیں ، پورے چار دانت۔لڑکپن میں شیو بنانے کے بعد آئینے پر الوداعی نظر ڈالتا تھا تو منہ سے بے ساختہ نکلتا تھا : اللہ رے میں ! لیکن اب جو آئینہ دیکھا تھا تو زبان سے یہ مصرع ادا ہوا :

اب ہم بھی جانے والے ہیں ” دندان ” تو گئے

جب میرے خیر خواہ میری زبان سے یہ مصرع سنتے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور وہ چشم تصور سے خود کو کسی کا جنازہ اٹھانے ہوے قبرستان کی طرف جاتا ہوئے دیکھتے۔احتیاطا” میں خود بھی ان کے ساتھ روانہ ہو جاتا کہ کہیں سپرد خاک کرنے کے بجائے غرق دریا یا نذر آتش نہ کر دیں۔

دنداں ساز نے بتایا کہ اخراج دنداں ہو چکا، اب تنصیب دنداں کا مرحلہ ہے جو چھے ماہ بعدطے ہوگا۔یہ عرصہ میں نے جس صبر و ندامت سے گزارا ہے ، وہ میں ہی جانتا ہوں۔شرمندگی اس وقت دو چند ہو جاتی جب کوئ حسن بے پروا ،بے نقاب روبرو ہوتا اور میں نے روسیاہی کے خوف سے چہرے کو ماسک سے چھپا رکھا ہوتا تھا۔میں نے کرونا کے دنوں میں ماسک کی ‘ سہولت ‘ کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔۔۔۔۔طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔

یہ تو خیر دل لگی کی باتیں ہیں۔اس عرصے میں ایک مابعدالطبیعیاتی تجربہ بھی ہوا لیکن اہل ظرافت کو گزارش احوال کی اجازت نہیں ہوتی۔زبان کو دانتوں سے بچانے کا حکم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خامہ خراب