خرچ ہو جاؤں گا میں خود کو خبر ہونے تک

یہ تحریر 598 مرتبہ دیکھی گئی

ہوائے نیم شب کبھی کسی کے آنسوؤں کو لے آتی ہے۔ پتا نہیں، یہ سوغات ہے یا شکایت یا حیرانی۔ یوں لگتا ہے میرے اِردگرد بجلیاں گر رہی ہیں اور بوندیں بھی۔ ہیروں کی طرح چمکتی بوندیں۔ ہیرا حیرانیاں۔ میری پروا میں اتنی گنجائش کہاں کہ ان کو کسی کم غمگین رات کے لیے سینت رکھوں۔ لیکن آنے والی راتوں میں تو یہ حیرانیاں مدھم پڑتی جائیں گی جیسے وہ کسی بجھنے کی طرف ہچکتے ہچکتے قدم بڑھا رہی ہوں۔
میں سمجھتا تھا کوئی مجھ سے دُور روتا ہے۔ نادان، غور سے سُن۔ کہیں یہ کوئی پرانا رونا ہی لوٹ نہ آیا ہو۔ کسی موسم میں نئے پتّے نکلتے ہیں، کسی موسم میں پرانے ہوکے جھڑتے ہیں۔ رونے کی رُت آتی ہے، جاتی ہے۔ جن کے لیے اب کوئی نہیں روئے گا کہ ظلم تو دنیا میں دایم ہے، اُن کی خاطر میں کبھی رویا تھا اور آیندہ بھی روؤں گا۔ رِقّت بھی دولت ہے۔ اسے خرچ ہونے دے۔ ظالم وہ ہیں جن کا مال کبھی ختم نہیں ہوتا۔
۲۰۱۶ء