تدبیر الدولہ مدبر الملک منشی مظفر علی اسیر

یہ تحریر 2709 مرتبہ دیکھی گئی

            جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اسیر لکھنوی (۱۸۰۵تا۱۸۸۲)کے نام سے میں بالکل لڑکپن کے زمانے میں آشنا ہوا۔ لکھنؤ کے ایک مشاعرے کے بارے میں چکبست کا ایک مضمون تھا، یاد نہیں کہ وہ ’مضامین چکبست‘میں تھا یا کسی اور کتاب میں۔لیکن چکبست نے اس مشاعرے اور اس کے ماحول کو کچھ اس طرح زندہ کردیا تھا کہ اس کی بہت سی باتیں مجھے یاد رہ گئیں۔اس زمانے کے دستور کے مطابق مشاعرہ طرحی تھااور آتش کا مصرع طرح مقرر کیا گیا تھا  ع

            اگتی ہے جاے سبزہ کنگھی مرے چمن میں

            چکبست نے لکھا تھا کہ حاصل مشاعرہ ایک نو خیز شاعر کا یہ شعر تھا   ؎

            دامن کو چاک کر کے رسوا ہوئی ہے کیا کیا

            تھی عصمت زلیخا یوسف کے پیرہن میں

چکبست نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگرچہ خواجہ آتش اس مضمون کو پہلے باندھ گئے تھے،لیکن ان صاحب زادے نے پھر بھی ایک بات پیدا کر لی تھی۔ آتش کا شعر تھا    ؎

            نہ پھاڑنا تھا زلیخا کا دامن یوسف

            نہ اس کا پردہئ عصمت دریدہ ہونا تھا

اس شعر کی بندش کچھ ایسی تھی کہ اسے سمجھنے میں مجھے کچھ دقت ہوئی تھی،لیکن دونوں ہی شعر مجھے یاد رہ گئے اور اب تک یاد ہیں۔چکبست نے اس مشاعرے کے بارے میں یہ بھی لکھا تھا کہ اسیر لکھنوی مرحوم کے ایک شاگرد بھی مشاعرے میں تشریف فرما تھے، انھوں نے ’قدیم رنگ‘کی غزل پڑھی تھی،اس کا ایک شعر تھا    ؎

            دریاے خون عاشق لہریں جو لے رہا ہے

            بیتاب ہیں مچھلیاں بازوے تیغ زن میں

            اس وقت میری سمجھ ہی کتنی تھی، لیکن مجھے چکبست کا یہ کہنا کچھ مربیانہ سا لگا کہ ان صاحب نے ’قدیم رنگ‘ کا شعر کہا تھا،گویا شعرتو معمولی تھا،لیکن قدیم رنگ کی وجہ سے شاعر کو معاف کیا جا سکتا تھا۔ مجھے تو یہ شعر بہت اچھا لگا تھا۔میں نے سوچا کہ قدیم رنگ ہو یا جدید، شعر اچھا اوردلچسپ ہو توکیا مضائقہ؟اور یہ بھی کہ منشی مظفر علی اسیرپرانے رنگ کے کوئی بہت بڑے شاعررہے ہوں گے،تبھی تو ان کے شاگرد نے اتنا عمدہ شعر کہا تھا۔

            اس کے بعد اسیر کے بارے میں ادھر ادھر کی متفرق معلومات مجھے حاصل ہوتی رہی، لیکن ان کا کلام پڑھنے کا موقع نہ ملا۔مجھے یہ بھی نہ معلوم ہوا کہ اسیر کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کیا تھی۔ بس یہ خیال تھا کہ چکبست نے جب مضمون لکھا تھا تو اس مشاعرے کو ’تیس چالیس‘ پہلے کا بتایا تھا۔اور ظاہر ہے کہ اس کے انعقاد کے وقت اسیر کا انتقال ہو چکا ہو گا۔اس اعتبار سے اسیربالکل ہی پرانے زمانے کے شاعر ٹھہرتے تھے۔ بات یہ ہے کہ میں جس زمانے میں ہوش سنبھال رہا تھا،اردو تنقید’لکھنؤ اسکول‘، ’لکھنوی خارجیت‘،’لکھنوی سطحیت‘ وغیرہ کو قائم کرنے میں پورا زور صرف کر رہی تھی۔ ایسے میں، جب اسیر کے استاد مصحفی کو پوچھنے والا کوئی نہ تھا تو اسیر کے لئے وقت کس کے پاس رہا ہوگا۔

            کئی برس بعد، اوراردو فارسی شاعری میں تھوڑی بہت شد بد پیدا کر لینے کے بعد مجھے فن عروض حاصل کرنے کی سوجھی۔ میں نے الٰہ آباد یونیورسٹی کے ناموراستاد پرو فیسر سید محمد رفیق سے رجوع کیا تو انھوں نے بے تکلف مجھے عروض کے چند ابتدائی سبق پڑھا دئیے۔پھر میں نے اپنے ذوق کے سہارے عروض کی بعض کتابیں پڑھیں۔اسی دوران مجھے محقق طوسی کی ’معیار الاشعار‘کا اردو ترجمہ موسوم بہ ’زر کامل عیار‘مع فارسی متن کا ایک پرانا نسخہ دستیاب ہو گیا۔ مترجم یہی مظفر علی اسیر تھے۔ میں اسیر مرحوم کا ہمیشہ احسان مند رہوں گا کہ اس کتاب کے مطالعے نے مجھ میں عروض کی صحیح سمجھ عطا کی۔ ’زر کامل عیار‘ میں کہیں کہیں حاشیے بھی ہیں، اور کہیں کہیں اصل متن کی تشریح (یا ’شرح‘) بھی ہے۔بعض لوگوں کے کچھ اعتراضات کو بھی فاضل مترجم نے رد کیا ہے۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو میں فن عروض کی بنیاد تین کتابوں پر قائم ہے۔ایک تو امام بخش صہبائی کا ترجمہئ ’حدائق البلاغت‘(مصنفہ شمس الدین فقیر)، دوسری ’بحر الفصاحت‘(مصنفہ مولوی نجم ا لغنی)، اور تیسری ’زر کامل عیار‘، یعنی مظفر علی اسیر کاترجمہئ ’معیار الاشعار‘۔مولانا صہبائی کا ترجمہ سب سے قدیم ہے (۱۸۴۴)۔پھر اسیر کا ترجمہئ ’معیار الاشعار‘ ہے (۱۸۷۲)، پھر نجم الغنی کی ’بحر الفصاحت‘ جس کا پہلا ایڈیشن ۱۸۸۷ میں شائع ہوا تھا اور اب تقریباًنایاب ہے۔دوسرا ایڈیشن جو پہلے ایڈیشن سے بہت زیادہ مفصل ہے، ۱۹۳۶ میں شائع ہوا اور یہ بھی بہت کمیاب تھا۔ چند سال ہوئے ترقی اردو کونسل نے اسے کمال احمد صدیقی کے حواشی کے ساتھ شائع کردیا تھا۔اسیر اور صہبائی دونوں کے تراجم اس وقت کم و بیش نایاب ہیں اور ضرورت ہے کہ انھیں پھر سے شائع کیا جائے۔

            ’زر کامل عیار‘ کی زبان ادق ہے، اور بعض لوگوں نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اصل سے زیادہ ترجمہ مشکل ہے۔لیکن یہ زیادتی ہے۔ اول تو ’معیار الا شعار‘ خود ہی بہت ادق کتاب ہے اور اس میں وسیع مطالب کو کم سے کم لفظوں میں بیان کیا گیاہے (بالکل ارسطو کی ’بوطیقا‘ کی طرح)، اور دوئم یہ کہ اس زمانے میں اردو کی علمی نثر کا انداز ہی یہ تھا کہ بات کو کم سے کم لفظوں میں کہا جائے، اور فارسی عربی سے پرہیز کے بجاے ان زبانوں پر تکیہ بیش از بیش کیا جائے۔اس نقطہئ نظر سے دیکھئے تو یہ کتابیں کچھ ایسی مشکل نہیں ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ پیراگراف سازی کا لحاظ نہ رکھنے، اوقاف کی رسم سے بیگانگی، اور مفصل فہرست کے فقدان کے باعث ان کتابوں کا مطالعہ آسان نہیں۔لیکن یہ خیال رہے کہتینوں کتابیں اردو میں ہیں، فارسی میں نہیں۔ورنہ پرانے زمانے میں علمی اظہار خیال کے لئے فارسی ہی کو اختیار کیا جاتا تھا۔

            یہی وجہ ہے کہ علم عروض ا ور نحو سے متعلق مظفر علی اسیر نے جو تین مختصر رسالے لکھے، وہ فارسی ہی میں ہیں۔’شجرۃ العروض‘(۵۷ صفحات)،’روضۃ القوافی‘(۱۸ صفحات) اور ’رسالہ اضافت‘(۶ صفحات)کی اشاعت کی اول تاریخ نہیں معلوم، لیکن میرے پاس نولکشورپریس کانپور کا جو ایڈیشن ہے اس میں یہ تینوں یکجا ہیں اور تاریخ اشاعت ۱۹۱۵ ہے۔ ’شجرۃ العروض‘ میں کوئی خاص بات نہیں، لیکن جو بھی لکھا ہے وہ مستند کتابوں کی رو سے لکھا ہے اور نسبۃًسہل الفہم بھی ہے۔سب سے دلچسپ اور کار آمد رسالہ اصول اضافت پر ہے اور اس میں اضافت کی مختلف مشہور و مروج قسموں کے سوا بھی کئی قسمیں بتائی گئی ہیں۔بعض کو اسیر کے دماغ کی اختراع بھی کہا جاسکتا ہے اور ان کو بظاہر نحو کے عالم سے نہیں بلکہ علم بیان کے عالم سے قرار دینا چاہئے۔  اسیر کا یہ مختصر رسالہ تازگی فکر کا عمدہ نمونہ ہے۔

            اس رسالے میں تھوڑٰی سی گفتگو فک اضافت پر بھی ہے۔اس معاملے میں اکثر لوگوں کو تشویش رہی ہے کہ فک اضافت کوئی مطلق اصول ہے، یا اسے صرف چند الفاظ کے لئے جائز سمجھنا چاہیئے؟اسیر کہتے ہیں بعض تراکیب سے کسرہئ اضافت کو ساقط کردینے کا عمل ’موقوف بر سمع است،نہ بر قیاس۔‘اس کے معنی یہ ہوئے کہ فک اضافت صرف چند الفاظ پر وارد ہوتی ہے اور اس کا کوئی اصول نہیں۔اردو کے اکثر اساتذہ اسی خیال کے پابند رہے ہیں۔مظفر علی اسیر نے ایک فہرست پیش کی ہے کہ ان چند الفاظ ہی کے ساتھ فک اضافت جائز ہے۔لیکن ایرانیوں کا عمل اس سے مختلف رہا ہے۔یعنی وہ جہاں بھی دل چاہے (یعنی اگر وزن، یاروانی کا تقاضا ہو) اضافت کے کسرہ کو حذف کردیتے ہیں۔ ہمارے یہاں میر کے زمانے تک اس کی مثالیں مل جاتی ہیں۔لیکن بعد کے لوگ زیادہ ’محتاط‘ ہو گئے۔اسیر کا شمار انھیں لوگوں میں کرنا چاہیئے۔مگر انھوں نے فک اضافت پر مبنی تراکیب کی ایک ممکن فہرست پیش کردی ہے۔ یہ بات بہر حال لائق ستائش سمجھی جائے گی۔

            قافیے کے معاملے میں اردو والوں کو ہمیشہ پریشانی رہی ہے۔انھوں زیادہ تر عربی اور فارسی کے اصولوں کو قائم کرنا چاہا ہے۔ کامیابی تو اس میں ہونی نہیں تھی،کیونکہ اردو زبان (یعنی کھڑی بولی) کی بناوٹ وہ ہے ہی نہیں جو فارسی،عربی کی ہے۔ لہٰذا ہمیشہ مشکلات پیدا ہوتی رہی ہیں جنھیں چپ چاپ نظر انداز کیا کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً اردو میں قوافی ’رہی/لگی/جمی‘  وغیرہ بالکل درست ہیں،لیکن فارسی کے حرف روی کے اعتبار سے غلط ہیں۔ظاہر ہے کہ استادوں نے ان قوافی کو جائز رکھا ہے اور حرف روی کے تکلفات کو نظر انداز کیا ہے،لیکن انھوں نے لکھا کبھی نہیں کہ قوافی ’رہی/لگی/جمی‘وغیرہ درست ہیں۔ اسی طرح، ایطا کے معاملے میں ہمارے استادوں نے خلط مبحث اور تضاد کو روا رکھا ہے۔مظفر علی اسیر اس سے مبرا نہیں ہیں۔مثلاً، وہ ایطا کی تعریف تو درست لکھتے ہیں اور اسے ’عیوب فاحش‘ میں بتاتے ہیں، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر قصیدہ مشتمل بر زائد از چہل بیت ہو تو دو چار بار ایطا کا ارتکاب کر سکتے ہیں اور وہ بھی تب، جب ایطا والے ابیات کے درمیان فاصلہ ہو۔پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’در اشعار مردف بعض جا اساتذہ آوردہ اند۔‘ظاہر ہے کہ ایطا ہو گا، یا نہ ہوگا۔یہ بات بے معنی اور غیر منطقی ہے کہ ایطا کہیں ہو اور کہیں نہ ہو۔ایطا کے بارے میں غالب نے بھی کچھ اسی قسم کی با ت کہی ہے۔لیکن غالب ان معاملات میں کچھ زیادہ ذی علم نہ تھے،مظفر علی اسیرسے ہم کچھ زیادہ توقع رکھتے ہیں۔ اور اصل بات یہ ہے کہ ایطا صرف مطلعے میں واقع ہوسکتا ہے، بعد کے اشعار پر ایطا کا حکم لگا نا محض فضول ہے اور خلط مبحث سے زیادہ نہیں۔

            مظفر علی اسیر ہمہ جہت شخص تھے۔ وہ واجد علی شاہ کے مصاحب خاص رہے،لیکن ان کے ساتھ کلکتہ نہ گئے۔ پھر بھی، جب وہ رامپور پہنچے تو انھیں تنخواہ لینے سے عار تھا کہ کوئی کام ان کے سپرد نہ تھا۔ ممتاز علی آہ نے ’سیرت امیر مینائی‘ میں لکھا ہے کہ ایک بار جب امیر مینائی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی صورت دیکھتے ہی اسیر’کچھ خشونت کے ساتھ کہنے لگے، میاں امیر یہ مجھے پسند نہیں کہ کوئی کام نہ کروں اور مفت تنخواہ لیا کروں۔ حضرت]امیر مینائی[ نے مسکرا کر عرض کیا،آپ کو یہ کیا خیال آیا؟رؤسا کاملان فن کی یوں ہی قدر دانی کرتے ہیں۔ ]اسیر نے[ فرمایا،نہیں۔مجھے یہ منظور نہیں۔]امیر نے[عرض کی،ملک کو جو فیض شاعری میں آپ سے پہنچ رہا ہے،یہی بڑی خدمت ہے۔]اسیر نے[اس کو بھی نہ سنااور فرمانے لگے،تم نواب صاحب سے کہہ دینا،یا تو مجھ سے کوئی کام لیں،نہیں تو میں اپنے گھر جاتا ہوں۔ایسی تنخواہ سے میں در گذرا۔‘

            ملاحظہ کیجئے، تنگ حالی کا زمانہ تھا،لیکن اسیر کو بلا خدمت تنخواہ لینا گوارا نہ تھا۔ امیر مینائی کہتے ہیں کہ اسی زمانے میں اسیر نے ’بوستان خیال‘ کو منظوم کرنا شروع کر دیا تھا۔ نواب تک شاید اس کی خبر امیر مینائی نے پہنچائی ہو، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رام پور کی رضا لائبریری میں کئی داستانیں اسیر کی تصنیف کردہ موجود ہیں۔ حامد علی خان کو داستان سے بہت شغف تھا، اس لئے ممکن ہے انھوں نے اسیر سے فرمائش کر کے داستانیں لکھوائی ہوں۔یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ داستانیں سنائی بھی گئیں کہ نہیں۔لیکن امکان ہے کہ سنائی بھی گئی ہوں،کیونکہ اس زمانے میں اوروں کے علاوہ شاہزادہ میرزا رحیم الدین حیاداستان گوئی پر مقرر تھے۔جمیل جالبی نے مظفر علی اسیر کی حسب ذیل داستانوں کا ذکر کیا ہے:

طلسم باطن بالا باختر

            طلسم باطن آفات

            طلسم ضحاکیہ

            طلسم نادر فرنگ

            طلسم باطن نیرنجات

            طلسم نریمان

            ترجمہئ لعل نامہ

            جس داستان کو ’لعل نامہ‘ کا ’ترجمہ‘ کہا گیا ہے، وہ بظاہر ’داستان امیر حمزہ‘کی ایک کڑی ہے۔ لیکن باقی داستانوں کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اسیر کی طبع زاد ہیں یا زبانی طور پر رائج داستانوں کی تحریری شکل ہیں۔بہر حال، یہ تو ظاہر ہے کہ اسیر کی تخلیقی کار گذاریوں کا دائرہ صرف قصیدہ، غزل اور مثنوی تک محدود نہیں۔اغلب ہے کہ وہ جس طرح شعر میں پر گوتھے، اسی طرح نثر میں بھی بآسانی رواں رہے ہوں گے۔مختلف الجہات شخصیت کی بنا پر اور خاص کر فن شعر کی غیر معمولی پرکھ اور بے مثال پر گوئی کے باعث اسیر کے شاگردوں کی تعداد کثیر تھی،اور بڑی بات یہ کہ ان میں بعض شاگرد بہت نامور اور بڑے صاحب فن ہوئے۔ اسیر کے شاگردوں میں امیر مینائی اور ریاض خیر آبادی کے ناموں سے ہم واقف ہیں۔ان کے علاوہ رتن ناتھ سرشار، شوق قدوائی،طوطا رام شایاں بھی ان کے شاگردوں میں تھے۔ یہ سب کے سب اپنی جگہ پر ادب کے گوہر آبدار ہیں۔

            یہ بات درست ہے کہ ریاض کو بہت جلد ہی اسیر نے اپنے لائق شاگرد امیر مینائی کے سپرد کر دیا اور سبھی لوگ عام طور پر ریاض کو امیر مینائی ہی کا شاگرد سمجھتے ہیں،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاض کا جوہر قابل اسی معدن سے نکلا تھا جسے ہم منشی مظفر علی اسیر کہتے ہیں۔

            امیر مینائی کا کہنا ہے کہ میں نے پہلے پہل ایک سہ غزلہ استاد کی خدمت میں بغرض اصلاح پیش کیا۔’اصلاح دیکھی تو بہت سے تصرفات پسند نہ آئے اور ]میں نے[ استاد سے وجہ پوچھی تو فرمایا:’دو مہینے تک روزانہ مجھے ایک غزل دکھاؤ لیکن اصلاح کے وجوہ نہ دریافت کرو۔اس کے بعد میں اصلاح کے وجوہ بھی بتا دوں گا۔‘ممتاز علی آہ بتاتے ہیں کہ پندرہ بیس غزلوں تک اصلاح دیکھ کر حضرت ]امیر مینائی[یہ سمجھتے رہے کہ بننے کے بجاے غزل بگڑ جاتی ہے۔لیکن رفتہ رفتہ ہر اصلاح کی خوبی خود ہی سمجھ میں آنے لگی اور دو تین مہینے کے بعد اصلاح کے وجوہ دریافت کرنے کی ضرورت باقی ہی نہ رہی۔

            یہ اور اس طرح کے متعدد واقعات ہیں جن سے ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ استاد اگر کامل ہو تو وہ شاگرد کی شاعری بہتر سے بہتر بنا دیتا ہے لیکن شاگرد کے رنگ و مذاق سخن میں تصرف نہیں کرتا۔ شاگرد کی انفرادیت (اگر کچھ ہے) تو وہ باقی رہتی ہے لیکن فن پر عبور بڑھ جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے بعض اوقات شاگرد خود استاد کو متاثر کرتا ہے۔ چنانچہ مصحفی نے آتش کی بہت تعریف کی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ انھوں نے جو رنگ کلام اختیار کیا ہے وہ مجھے اتنا پسند آیا ہے کہ میں خود اس رنگ میں کہنے لگا ہوں۔ چنانچہ مصحفی کے ساتویں اور خصوصاً آٹھویں دیوان پر ناسخ اور آتش کی خیال بندی کا اثر صاف نظر آتا ہے۔

            اسیر نے جب مصحفی کی شاگردی اختیار کی ہو گی تو وہ استاد کا آخری زمانہ اور شاگرد کی اٹھان کے دن تھے۔(مصحفی کا انتقال ۱۸۲۴ میں ہوا، اس وقت اسیر انیس بیس سال کے تھے۔) اسیر نے لا محالہ وہی انداز خیال بندی کااختیار کیا جو اس وقت بیحد مقبول تھا اور ناسخ و آتش جس کے سب سے بڑے نمائندے تھے اور غالب نے جسے منتہاے کمال تک پہنچایا۔لیکن لکھنؤ کی ادبی تاریخ میں ایک نئی بات پیدا ہو گئی تھی جسے ہمارے مورخوں نے خواہ مخواہ ’ناسخ کی اصلاح زبان کی تحریک‘ کا نام دے دیا ہے۔جیسا کہ رشید حسن خان نے لکھا ہے، ناسخ کا کوئی مستند قول، کوئی مصدقہ (یا غیر مصدقہ)تحریر ایسی نہیں جس کی رو سے ہم یہ فرض سکیں کہ ناسخ نے زبان کی ’اصلاح‘ کا بیڑا اٹھایا تھا، اور بطور خاص اس طرح، کہ ’متروکات‘کی فہرست بنے، یا بہت سے استعمالات جو پرانے لوگوں (خاص کر دہلوی لوگوں)نے روا رکھے تھے، ان کو زبان سے خارج کر دیا جائے۔

            اس منفی ’تحریک‘ کا ’سہرا‘ ناسخ کے سر باندھنے کے بعد ہمارے مورخوں نے ان کے شاگرد علی اوسط رشک کے تصرفات اور استعمالات کو ’معیاری‘ اور ’ناسخ کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق‘قرار دے دیا۔چنانچہ ناسخ کا کلیات جب۱۸۴۲ میں (یعنی ناسخ کے انتقال کے کوئی چار سال بعد)چھپا تو رشک نے اس کے ساتھ ایک ’غلط نامہ‘ بھی لگائے جانے پر اصرار کیا۔یہ ’غلط نامہ‘ انھوں نے اس دعوے کے ساتھ مرتب کیا کہ حضرت استاد کی آخری اور حتمی رائے کئی الفاظ و استعمالات کے باب میں یہ تھی کہ یہ درست نہیں اور انھیں اب متروک قرار دیا جاتا ہے۔ لہٰذایہ ’غلط نامہ‘ گویا ناسخ کے اصول و طرق کی صحیح نمائندگی کرتا تھا۔ لیکن جیسا کہ رشید حسن خان نے حتمی طور پر ثابت کیا ہے، اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ علی اوسط رشک نے جو ’غلطیاں‘ درست کی تھیں، وہ واقعی ناسخ کی اپنی رائے کے مطابق تھیں۔ بعض جگہ تو الفاظ ہی نہیں، فقرے اور پورے کے پورے مصرعے رشک نے بدل دئیے تھے۔بہر حال، ناسخ کا یہی ’تصحیح شدہ‘ دیوان ناسخ کے قول و عمل کی دلیل قرار پایا اور ’اصلاح زبان کی تحریک‘ کے قافلہ سالار کا عہدہ ناسخ کو ان کے مرنے کے بعد تفویض کردیا گیا۔

            اس دیوان ناسخ کی اشاعت (۱۸۴۲) کے کوئی پینتیس سال  بعد (۱۸۷۸)مظفر علی اسیر اور امیر مینائی نے مصحفی کے چار دیوان ’دیوان مصحفی‘ کے نام سے شائع کر دئیے۔یعنی مصحفی کے بقیہ چار دیوانوں اور دیوان قصائد کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ مصحفی کا کوئی دیوان اس وقت تک مطبوعہ صورت میں نہ تھا،اس لئے یہ بڑی خدمت تھی جو استاد اوردادا استاد کے لئے اسیر اور امیر نے انجام دی۔ لیکن انھوں نے استاد کا بہت سارا کلام زیور طبع سے محروم رکھنے کے علاوہ دوسری، اور بڑی زیادتی یہ کی کہ سید علی اوسط رشک کی طرح ان لوگوں نے بھی مصحفی کے کلام میں اندھا دھند ’اصلاحیں‘ کر دیں،تا کہ استاد کی زبان کو بٹہ نہ لگے کہ وہ ایسی زبان لکھتے تھے جو ناسخ کے ’اصولوں‘ کے خلاف تھی۔ انھوں نے یہ نہ سوچا کہ ناسخ تو بعد کے تھے اور مصحفی ان کے کم و بیش استاد کا درجہ رکھتے تھے،لہٰذا ناسخ کی ’اصلاح زبان‘کو مصحفی پر عائد کرنا سراسر زیادتی تھی۔پھر یہ بھی عجب زیادتی تھی کہ طباطبائی کی طرح اسیر و امیر بھی گذرے زمانے کے استاد سے ایسی زبان کا تقاضا کریں جواس کے زمانے میں تھی ہی نہیں۔طباطبائی نے جگہ جگہ غالب کے الفاظ اور استعمالات کو لکھنوی معیار سے سقط قرار دیا ہے۔لیکن ’اصلاح زبان‘ کا ہوا(یا ہونکا) ایسا زبردست تھا کہ استاد کے لئے بھی ضروری قرار دیا گیا کہ وہ ان ’اصولوں‘ کی پابندی کرے جن کا وجود ہی اس کے زمانے میں نہ تھا۔

            خدا بخش لائبریری نے ۱۹۹۰ میں مولانا عبد السلام خان رامپوری کا مدون کردہ اس ’دیوان مصحفی‘ کا محشیٰ نسخہ چھاپا تو یہ بات دنیا پر آشکار ہوئی کہ شاگرد (اسیر)اور شاگرد کے شاگرد (امیر) نے مل کر مصحفی کے اشعار میں کتنی ترمیمیں اور تحریفیں کر دی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی نیت نیک اور درست تھی، لیکن ناسخ زندہ ہوتے تو علی اوسط رشک کو، اور اگر مصحفی زندہ ہوتے تو اسیر و امیر کو ہرگز وہ نہ کرنے دیتے جو انھوں نے محض حسن نیت کی بنا پر روا رکھا تھا۔

            مظفر علی اسیر کے کلام کو آج بعض لوگ ’پھیکا‘ قرار دیں گے۔ اور ’بعض لوگ‘ ہی کیا، آج تک جو مذاق سخن ہمارے یہاں بڑی حد تک رائج ہے اس کے باعث اکثر لوگ اسیر کے کلام کو ’پھیکا‘ کہیں گے۔ جب رشید حسن خان صاحب ناسخ کے لئے کہہ سکتے ہیں کہ ان کا کم و بیش سارا کلام ہمارے کسی کام کا نہیں، تو بچارے میر مظفر علی اسیر کا کیا حال ہو گا کہ کم و بیش سو برس پہلے چکبست نے ان کے شاگرد کو ’قدیم رنگ‘کا شاعر بتایا تھا؟

            اس میں کوئی شک نہیں کہ اسیر کا کلام آج کے مذاق سے ہم آہنگ نہیں،لیکن یہ بات تو کسی بھی قبل از جدید شاعر کے لئے کہی جاسکتی ہے،اس میں اسیر کی کیا تخصیص؟کہا گیا ہے کہ اسیر کے کلام میں باطن سے پھوٹنے والی روشنی کا فقدان ہے، نئے مضامین کی تلاش بھی ان کے یہاں نہیں ملتی۔وہ کون سی روشنی ہے جو شاعر کے باطن سے پھوٹتی ہے؟اس سوال کا جواب اسیر و امیر تو کجا، میرا جی کے بھی بس میں نہ ہوگا۔ رہا مضمون کی تلاش کا معاملہ، تو کوئی بھی شاعری، اگر وہ ذرا بھی قابل توجہ ہو، مضمون سے خالی نہیں ہو سکتی۔اس پر گفتگو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ فی الحال ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے،اور وہ یہ کہ ایک زمانے میں شعر گوئی ایک طرح کی ’مشق تحریر‘سمجھی جاتی تھی۔ ’مشق سخن‘کا فقرہ خالی از علت نہیں۔اور آج کل مغرب میں (جس کی طرف اکثر جدید نکتہ چیں قبلہ درست رکھتے ہیں)ادب کو ایک طرح کی

Writing Practiceبھی کہا جاتا ہے۔اسیر کی یہ بات معنی خیز ہے کہ غزل سے کوئی شعر کم نہیں کرنا چاہیئے، خدا جانے کس وقت اور کس کو وہی شعر پسندیدہ ٹھہرے جسے آپ معمولی یا کمزور سمجھ کر غزل سے خارج کئے دے رہے تھے۔

            امیر مینائی ہی کا ایک واقعہ ممتاز علی آہ نے بیان کیا ہے۔ اسیر کے سامنے امیر نے ایک غزل سنائی جس کے قوافی ’ہلال/جمال‘ وغیرہ تھے۔اسیر نے غزل کی تحسین کی اورکہا کہ ’غزال‘ کے قافیے میں آپ نے خوب خوب شعر کہے ہیں۔ امیر مینائی کے منھ سے نکل گیا کہ کیا آپ کے خیال میں اس قافیے میں اب بھی کوئی شعر کہہ سکتا ہے؟اسیر مرحوم  نے کہا کہ یہ تو اپنی اپنی فکر اور اللہ کی دین ہے۔پھر انھوں نے ملازم کو اشارہ کیا،اس نے قلم دوات سامنے دھر دی۔آہ لکھتے ہیں،’اسیر مرحوم نے وہیں بیٹھے بیٹھے سترہ (۱۷) شعر ’غزال‘ کے قافیے میں لکھ کر کاغذ حضرت (امیر مینائی) کی طرف بڑھا دیا۔وہ شعر دیکھتے ہی آپ ایک سکتہ سا ہو گیا۔‘

            تو یہ بھی شعریات کی ایک طرز تھی، کہ ہر زمین اور ہر قافیے میں کثرت سے شعر کہو، تاکہ الفاظ کو برتنے کا سلیقہ آئے، مربوط کلام کہنے کی مشق بڑھے، قافیوں کو طرح طرح سے باندھنے کے باعث زبان کے امکانات کا شعور پیدا ہو۔

یہ بات درست ہے کہ اسیر کے یہاں خیال بندی کی وہ چمک دمک نہیں جو غالب کے کلام میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے۔خیال بندی کو جن شعرا نے اردو میں رائج کیا، ان میں بقا اکبر آبادی اور پھر شاہ نصیر کا بڑا مرتبہ ہے۔ غالب نے ناسخ کو اس طرز کا موجد بتایا ہے لیکن یہ غالب کی مروت اور دوست نوازی تھی۔ بہر حال، خیال بندی کے معنی ہیں دور از کار اور حتیٰ الامکان تجریدی مضمون باندھے جائیں۔لیکن پر گوئی بھی اسی کا ایک پہلو ہے، کہ طول طویل غزلیں کہی جائیں، قافیوں کو نئے نئے پہلو سے باندھا جائے۔بقول ممتاز علی آہ،اسیر کا ’معمول تھا کہ رات کو سوتے وقت…سرہانے کاغذ کی چٹیں کاٹ کر اور پلنگ کے پاس مونڈھے پر قلمدان رکھ دیا جاتا تھا۔وہ سوجانے سے پہلے کبھی چالیس پچاس، کبھی ستر اسی،اور کبھی اس سے بھی زیادہ شعر کہہ لیا کرتے تھے۔‘ممتاز علی آہ مزید کہتے ہیں کہ ایک دن اسیر نے کہا:’میاں امیر،تم تو کہتے تھے دیوان کے لئے کافی غزلیں ہو گئی ہیں۔لاؤ تمھارا دیوان لکھ دیں۔دیوان لکھنے کو بیٹھے تو ایک طرف غزلوں کی نقل کرتے جاتے،دوسری طرف جو زمین پسند آتی، اپنی بھی غزل ہوتی جاتی۔‘

            سبحان اللہ، کیا شاگرد تھے اور کیاخدمت گذار، برجستہ گو استاد، کہ شاگرد کی غزلیں خود نقل کرتا ہے اور جہاں جی چاہتا ہے، اپنی بھی غزل الگ لکھ لیتا ہے۔ظاہر ہے کہ شاعری کے جو اصول انگریزی کی رومانی شاعری کی کچی پکی سمجھ کی بنا پر ہمارے یہاں رائج ہوئے، ان میں  ’جذبے کی سچائی‘، ’تجربے کی گہرائی‘، اور سب سے بڑھ کر ’حقیقت پسندی‘ کا بول بالا ہوا، ایسے اصولوں کی دنیا میں اسیر و امیر کیا، ناسخ و آتش اور غالب و میر بھی دور تک نہیں چل سکتے تھے۔لیکن ہمارے یہاں شاعری کی دنیا اتنی محدود نہ تھی،کہ صرف ’ذاتی احساس‘کے دائرے میں مقید رہتی۔ ہمیں اپنے قبل ا ز جدید شعرا کا مطالعہ اس شعریات کی روشنی میں کرنا چاہیئے جس شعریات نے انھیں شاعر قرار دیا تھا اور ان کے با معنی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

            اسیر کے کچھ شعر دیکھئے اور یہ خیال رکھئے کہ ان میں کوئی ’نئی بات‘ نہیں ہے، بلکہ بنے بنائے سانچوں میں کچھ اضافہ، کچھ تغیر کر دیا گیا ہے    ؎

            آئے اگر مرے یرقاں کے علاج کو

            ہو جائے زرد عیسی معجز نما کا رنگ

            اتنی تو کام آئے پس مرگ چشم تر

            دلدل میں پھنس رہیں مرے دزد کفن کے پاؤں

            ملحوظ رہے کہ پہلا شعر میر کی زمین میں ہے اور دوسرا،غالب کی زمین میں۔یہاں شاعر کا امتحان یہی تھا کہ کوئی نیا مضمون لائے تاکہ ان اساتذہ کے سامنے اس کا چراغ جل سکے۔لہٰذا پہلے شعر میں ’یرقاں‘ کا مضمون رکھا اور دوسرے میں ’دزد کفن‘ کا۔ پہلے شعر میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی،کہ اپنے ’یرقاں زدہ‘ہونے کی کوئی دلیل نہیں قائم کی۔لیکن ’عیسی معجز نما‘ کا  رنگ رخ زرد ہو جانے میں ایک لطف ہے اور ’یرقان‘ سے مناسبت بھی ہے۔ایسی مناسبت عام شاعر کے ہاتھ نہیں لگتی۔

            اگر انوکھے مضمون کے ساتھ مکمل دلیل دیکھنی ہو تو علی قلی سلیم کا شعر ملاحظہ ہو      ؎؎؎

            کام عاشق چو در آید بہ بغل می میرد

            غنچہ بر شاخ دل ما گرہ طاعون است

            اسیر کے دوسرے شعر میں رونے کے عام مضمون کو کفن چور کا بالکل نیا اور غیر متوقع مضمون لاکر بالکل نئی جہت دے دی ہے۔اگلا شعر دیکھئے، کہ اس میں ایک پامال مضمون ہے کہ تلوار کا زخم مندمل ہو سکتا ہے لیکن بات کا زخم کبھی بھرتا نہیں    ؎

            اچھا ہو اس کا زخم نہ اچھا ہو اس کا زخم

            تلوار میں ہے جوہر تیغ زباں کہاں

زبان کو تلوار سے تشبیہ دیتے ہیں اور جب تلوار ہے تو اس کا جوہر بھی ہو گا۔ لیکن فولاد کا جوہر کچھ اور ہے، زبان کا جوہر (یعنی اس کی خصوصیت)کچھ اور۔لفظ ’جوہر‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ معنی پیدا کر دئیے اور مصرع اولیٰ میں جو دعویٰ تھااس کا ثبوت بھی فراہم کردیا۔ملحوظ رہے کہ یہ شعر مصحفی کی زمین میں ہے۔مصحفی کی غزل میں ایک طویل قطعہ ہے اور کئی شعر اور بھی ہیں۔لیکن ’تیغ زباں‘ کا مضمون انھوں نے شاید شاگرد کے لئے چھوڑ دیا تھا۔اسی طرح، اسی غزل میں اسیر نے عمر رواں کے بالکل پامال مضمون کو کیا نیا رنگ دیا ہے، یہ زبان پر قدرت اور الفاظ کی مناسب کا لحاظ رکھنے کی وجہ سے ہے   ؎

            پھرتا ہوں اسپ عمر رواں پر سوار میں

            دیکھوں زمیں دکھائے مجھے آسماں کہاں

غالب کا شعر سب کو یاد ہو گا، اس کی ڈرامائیت قابل داد ہے، اور تصویر اس قدر متحرک ہے کہ معلوم ہوتا ہے پردے پر منظر گذر رہا ہے    ؎

            رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے

            نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

لیکن اسیر کے شعر میں آسمان کے زمین دکھانے (یعنی اتار دینے، گرادینے، قبر میں ڈال دینے)کی معنویت نے شعر کی انفرادی حیثیت قائم کر دی ہے۔یہ بھی دیکھئے کہ اسیر نے غالباًبالارادہ ’رخش عمر‘ نہیں کہا، ’اسپ عمر‘ کہا۔

            اب دیکھئے کہ دل کی وسعت (یعنی گنجائی)کا مضمون عام ہے، اور ساغر جمشید کو بھی سب جانتے ہیں کہ اس میں پوری دنیا کاحال دکھائی دیتا تھا۔دونوں مضامین پیش پا افتادہ ہیں،لیکن اسیر نے ان کو متصل کر کے نئی بات پیدا کردی کہ دل کو جام جم پر تفوق کیوں ہے    ؎

            ہمارے دل سے کچھ نسبت نہیں ہے ساغر جم کو

            وہاں تھا ایک عالم دیکھتے ہیں ہم دو عالم کو

یہاں میر کاشعر یاد آتا ہے     ؎

            گھر دل کا بہت چھوٹا پر جاے تعجب ہے

            عالم کو تمام اس میں کس طرح ہے گنجائی

میر نے دل کو گھر سے تشبیہ دے کر تازہ  اور گھریلوپیکر بنایا ہے جو فوراً ہمارے دل کو لگتا ہے۔ اور پورے شعر کا سوالیہ، استعجابیہ انداز اسے کسی اور ہی بلندی پر فائز کرتا ہے۔لیکن جہاں میر ’تمام عالم‘ کی بات کرتے ہیں وہاں اسیر نے ’دو عالم‘ کہہ کر بات کو ذرا آگے بڑھا دیا ہے۔

            جیسا کہ ہم جانتے ہیں، قبل جدید شعرا میں یہ رسم عام تھی کہ گذشتہ استادوں کی زمینوں میں غزل کہنے کا اہتمام رکھتے تھے۔ اسیر کے یہاں سے کچھ مثالیں اوپر گذر چکی ہیں۔اب دو شعر اور دیکھئے، درد کی زمین میں ہیں    ؎

            مشکل ہے اہل کفر میں ایماں کی احتیاط

            کیونکر ہو خار زار میں داماں کی احتیاط

            جب سے بلند نالہئ سوزاں مرا ہوا

            کرتی ہے برق اپنے گریباں کی احتیاط

درد کا شعر سنئے، اس میں گریباں کا قافیہ ہے    ؎

            جو ش جنوں کے ہاتھ سے فصل بہار میں

            گل سے بھی ہو سکی نہ گریباں کی احتیاط

ایسے شعر کے سامنے کسی کا شعر کیا سرسبز ہوتا، خاص کر جب درد کے یہاں ڈرامائیت کا وفور ہے۔ لیکن اسیر نے اپنے لئے جگہ نکال ہی لی ہے۔مطلعے میں خار زار کو اہل کفر کے برابرقرار دینا بدیع بات ہے، لیکن مزید لطف کا نکتہ ’اہل کفر‘ کا ابہام ہے۔ یہ ’اہل کفر‘ اولاً تو معشوق ہی ہیں، لیکن ’اہل کفر‘ کو چاہنے والا خود بھی تو انھیں کے طبقے میں شامل ہو جاتا ہے۔اس طرح ’خار زار‘ برابر ہو جاتا ہے دشت عشق کے، یا یہ کہ عشق خود ہی خار زار ہے۔ ایک طرف چاکی داماں کے باعث عاشق کی رسوائی ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ کہ اہل کفر میں شامل ہونے کی وجہ سے ایمان کی بھی احتیاط عاشق سے نہیں ہو سکتی۔ مصرع اولیٰ میں دعویٰ ہے رو دوسرے مصرعے میں دلیل پوری ہے۔شعر ہر طرح مکمل ہے۔دوسرے شعر کے معنی تب سمجھ میں آئیں گے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ برق کو گریباں چاک کہتے ہیں۔

            معاملہ بندی کے شعروں میں بھی اسیر کا خیال بند انداز باقی رہتا ہے۔ ناسخ میں بھی یہی خصوصیت تھی۔اسیر کے کچھ شعر سنئے    ؎

            محفل میں تمھاری جو گیا جان سے گذرا

            دیدار خدا کا ہے ملاقات تمھاری

            نبض بیمار جو اے رشک مسیحا دیکھی

            آج کیا جاتی ہوئی آپ نے دنیا دیکھی

            باتیں بنائیں ہم نے جو وصف دہن میں کچھ

            بولے وہ ہنس کے آپ بھی ہیں کتنے بت بنے

’بت بنے‘(اول مفتوح)یعنی باتیں بنانے والا، فضول گو، کس قدر تازہ لفظ ہے۔لیکن یہ بھی خیال رہے کہ مصرع اولیٰ میں ’باتیں بنانا‘سے لفاظی مراد نہیں، بلکہ مضمون بنانے مراد ہے۔ میر کا شعر ہے    ؎

            بات بنانا مشکل سا ہے شعرسبھی یاں کہتے ہیں

            فکر بلند سے یاروں کو ایک ایسی غزل کہہ لانے دو

            لیجئے دل اگر ارادہ ہے                   کیا کوئی آپ سے زیادہ ہے

آخری شعر کے مصرع ثانی میں تین معنی ہیں۔(۱) دل بھلا آپ سے بڑھ کر ہے(۲) کوئی بھی شخص آپ سے زیادہ نہیں (۳) کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی ہے جس کی بات ہم مانیں اور آپ کی بات نہ مانیں؟

            چند شعر اور دیکھئے،ان میں معاملہ بندی اور شوخی کا عمدہ امتزاج ہے   ؎

            اس بزم میں ہو جائے نہ اٹھنے کا بہانہ

            غش بھی مجھے اے واے مقدر نہیں آتا

            جیتا ہوں تو کہتے ہیں یہ کس کام کا جینا

            مرتا ہوں تو کہتے ہیں تجھے مر نہیں آتا

            بہار گل سے سوا ہے بہار باتوں میں

            وہ چار باغ لگاتے ہیں چار باتوں میں

            انھیں تو کب نظر التفات اتنی ہے

            ہمیں کو ان سے محبت ہے بات اتنی ہے

            کیا ہے قتل مگرمڑ کے دیکھتے ہیں مجھے

            ابھی تلک نگہ التفات اتنی ہے

            پڑا ہوں بستر غم پر فقط مریض نہیں

            مزاج پوچھنے آئیں وہ گھات اتنی ہے

            ہوئی تجھے تو خوشی ہم حزیں ہوئے تو ہوئے

            بلا سے غیر ترے ہم نشیں ہوئے تو ہوئے             اسیر لکھنوی انیسویں صدی کے ان شعر ا میں ہیں جن کے کلام میں زبان کالطف، مضمون کی جدت اورانداز کی شگفتگی قدم قدم پر نمایاں ہے۔لیکن یہ شاعری ایسی نہیں کہ ایک دو صفحہ پڑھا، دل خوش کیا اور آگے بڑھے۔یہ شاعری ذوق شعر کے ساتھ اس تہذیبی مذاق کا بھی تقاضا کرتی ہے جس نے اسے جنم دیا۔تھوڑا صبر سے پڑھئے تو کلام میں لطف آنے لگے گا، اور اتنا کہ زمانہئ حال کے بہت سے ’استاد‘آپ کے دل سے اتر جائیں گے۔