بھول بھلیّاں

یہ تحریر 718 مرتبہ دیکھی گئی

آبی رنگوں سے بنی سہ پہر میں گلابیدہ جسم آبگینہ ساعت میں عکس کی طرح لرزاں،
بے برگ و بار خبروں اور اُلٹے پُلٹے ورقوں کے بیچ کسی افسانوی شفّافی، کسی وحشیانہ برّاقی سے ہم کلام، ہم مقام۔ ہوس کے اندھڑ میں روشن چراغ، خزاں کی یُورش سے بے حال باغ، سنّاٹے کے بھنور میں اَن کہی باتوں کا جھاگ، اَرّاٹوں کی بھول بھلیّاں میں اُڑتی کہانیوں کی دُھول۔ چھتیائے پنکھے گلابی کٹھنائیوں کے مارے گردش میں آئے ہوے۔ کہیں دھوپ، کہیں چھانؤ۔ اور تیری شفقیلی آواز در و دیوار کو ٹٹولتی ہوئی۔ باہر دھوپ کی آنچ، باطن میں شام کا سنسان۔ کوئلہ بدن کے پہلو میں انگاروں جیسی گات کی سنسنی۔ یہ بسے بسائے لوگ، یہ اُجڑے ہوے دل۔ پیار کی منجھ دھار میں بات سے بات نکلتی ہوئی، رنگ سے رنگ ملتے ہوے۔ تہ تک پہنچتے پہنچتے رات ہو جاتی ہے اور گلابیدہ جسم کو کہیں کہیں ستارے گدگداتے ہیں۔ زندگی کی کہانی پھر سے کینچلی بدلتی ہے۔
۲۰۱۵ء