اَلاو

یہ تحریر 206 مرتبہ دیکھی گئی

دھند کی اوڑھنی کو سرکاتی
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی
گاہے رکتی ہے ، گاہے چلتی ہے
رات اپنے کسی سفر پر ہے
سوکھی ‘ گیلی سلگتی سانسوں سے
ناگہاں ایک شعلہ اٹھتا ہے
جیسے وہ شب کے شامیانے میں
کوئی گہرا شگاف ڈالے گا
شعلگی —— نارسائی کی سوتن
بجھتے بجھتے بھڑکنے لگتی ہے
سرد مہری کی جامنی چادر
خواب کے تن پہ کسمساتی ہے
آرزو ——– بانسری کی مدّھم لَے
دل پہ چپکے سے پانو دھرتی ہے
دفعتاً دھیان کے جھروکے سے
اِ یک کوندا لپک دکھاتا ہے
کاش یہ شبنمی خُمار سی آنچ
دُ ھند کی آنکھ نور سے بھر دے
رات کی عُرفیت بدل جائے
پھول جھڑنے لگیں ستاروں سے
آگ ٹپکے رگِ مَحبّت سے
وقفے وقفے سے لکڑیاں ڈالیں
اس اَلاو میں آشنائی کی
اور پھر دل کی آنکھ سے دونوں
آج اک دوسرے کا چہرہ پڑھیں