نظم

یہ تحریر 213 مرتبہ دیکھی گئی

کبھی وہ دن تھے
محبت یقیں کی صورت تھی
دیے جلا کے عجب چین دل کو ملتا تھا
گلاب ہاتھ سے گرتے تو اشک آ جاتے
سخن سماعتیں سر سبز کر دیا کرتا
اور اب تو ایسی اذیت
کہ دل یہ چاہتا ہے
اُتار پھینکیں محبت کی ساری زنجیریں
خود اپنے پاؤں تلے روند دیں گلابوں کو
سخن کے کر دیں مقفل تمام دروازے
لگا دیں آگ ہم اپنے تمام خوابوں کو
ہوا کا ساتھ نبھائیں چراغ گُل کر دیں
اُڑائیں خاک فضاؤں کو سوگوار کریں
کریں خود اپنی ہی حالت پہ اس قدر گریہ
تمام شہر کے لوگوں کو اشک بار کریں