اوراق گم گشتہ

یہ تحریر 492 مرتبہ دیکھی گئی

-کشفی ملتانی کا مظفر گڑھ:-

۱۹۷۱ کا مہینہ ‘ستمبر کی چوبیس تاریخ—- مظفر گڑھ کالج کی پہلی یاد-شریف النفس پرنسپل نصیر احمدانصاری کے دفتر میں بیٹھا اپنی پہلی سرکاری نوکری کےکاغذات مکمل کر رہا ہوں-پرنسپل آفس میں الللہ بخش ہیڈ کلرک کے علاوہ پروفیسر املاک احمد نیازی صدرشعبۂ اُردو، پروفیسر زین الدین حسین ، پروفیسر خان محمد دستی پروفیسر خواجہ رئیس احمر اور پروفیسر عابد عمیق بھی موجود ہیں- ہیڈ کلرک کی بتائی ہوئی جگہوں پر چارج رپورٹ پر دستخطوں سے فارغ ہوتا ہوں تو نصیر انصاری اپنی کرسی سے کھڑے ہوکر ہاتھ ملا کر مبارکباد دیتے ہیں اور کہتے ہیں- لوبھائی جان اب آپ سترہ گریڈکے گزیٹڈ افسرہوگئے(بھائی جان کاطرزتخاطب اُن کا تکیۂ کلام تھا)-جب تک کوئی انتظام نہیں ہوجاتا آپ ہوسٹل ہی میں رہیں گے میں نےہوسٹل سپرنٹنڈنٹ کو بتا دیا ہے- پھر چائے کادور چلتا ہے کیا زمانے تھے، کیا عمدہ لوگ تھے: ڈھونڈاب ان کوچراغ رُخ زیبالے کر-مظفر گژھ میں میرا قیام کم وبیش چار سال تک رہا، بیچ میں کچھ دیر کے لئے لیہ کالج کابھی چکر لگا آیا تھا کسی سیاسی ستم ظریف کی نوازش سے-مگر مظفر گڑھ کی کشش پھر واپس لےآئی-میرا دل بھی یہیں لگتا تھاجس کی بنیادی وجہ الللہ بخش کشفی ملتانی اورشہر کا ادبی مرکز بشارت کا دفتر تھا-یہ مین چوک پر مسلم کمرشل بنک کے متصل تھا، کشفی صاحب کی رہائش بھی اسی عمارت میں تھی اور میں قنوان ہوٹل میں رہتاتھاجو مین روڈ پربشارت کے دفتر کے بالکل سامنے تھا-اس ہوٹل کی بڑی اہمیت تھی کہ قرب وجوارکی اہم شخصیات یہاں قیام کرتی تھیں اورشہر کے دانشور یہاں شام کی محفلیں سجایا کرتے تھے-مجھ خوب یاد ہے کہ رفیق خاور جسکانی ،محسن نقوی اور پٹھاناخان سے میری پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی-جب کبھی یہ لوگ آتے تورات کو خاور جسکانی کے کمرے میں پٹھاناخان کی محفل موسیقی ضرورسجتی-ہفت روزہ بشارت کے دفتر کاپھیرا میرا روزانہ کا معمول تھا کہ جس دن کشفی صاحب سے ملاقات نہ ہوتی تو لگتا کہ آج کچھ کمی رہ گئی ہے- جوں ہی دفتر میں داخل ہوتا کشفی صاحب اپنے کارکن کو مخصوص آواز میں پکارتے “او نقیبابھین ڈےچ۰۰ ۰۰۰۰چھیتی ونج ڈُوھ کپ چاہ دےگھن آ “ کشفی صاحب کایہ ملازم نما کارکن نقیب جعفری بھی ایک عجوبہ تھا- کشفی صاحب کی صحبت میں رہ رہ کر کرشاعری کا ہنر بھی خوب جان گیا تھا، مشاعروں میں کشفی صاحب سے پہلےکبھی اسے پڑھنے کا موقع مل جایا کرتا تھا-ایک مشاعرے میں نقیب نےکشفی صاحب کی وہی نئی غزل اپنے نام سے پڑھ دی جوکشفی صاحب کو آخر میں پڑھنا تھی- کشفی صاحب اب بھلا کیا کر سکتے تھے سوائے نقیب کو برا بھلا کہنے کے-اسی طرح کے مزےمزے کےقصے کشفی صاحب اس انداز میں سنایا کرتے تھے کہ محفل پرسحر طاری ہو جایا کرتا اور دل چاہتا تھا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی- کشفی صاحب خود تو بلند پایہ شاعر تھے ہی مگر جس طرح اُنہوں نے مظفر گڑھ جیسے دوردراز خطےمیں شاعری اور ادب کی آبیاری کی اس کی مثال ملنا مشکل ہے-خودسناتے تھے کہ ابتداء میں ملتان ادبی مرکز ہوا کرتا تھا اورمشاعرے بھی وہاں ہوا کرتے تھے-کوشش کرکے اُنہوں نےمظفر گڑھ میں مشاعرے کا ڈول ڈالا اور ہندوستان سے بڑے بڑے شعراءکو بلوایا- شاید جگر مراد آبادی بھی اُن میں شامل تھےمشاعرہ بہت کامیاب رہا لیکن ہوا یہ کہ اگلے ہی روز جب کشفی صاحب بازار سے گزر رہے تھے تو پیچھے سےکسی منچلےنے آواز لگائی “سائیں اوہ مشاعرہ ویندا پیا اے”۔ کشفی صاحب انتہائی ہمدرد،نفیس ، خاکسار اور بذلہ سنج شخص تھے-وہ وسیع المطالعہ تھے-سید عابد علی عابد کے بعد مجھے بہت کم لوگ ایسےملے ہیں جن کو شعر کی فنی باریکیوں پر اتناعبورہو-کشفی صاحب اپنے رنگ کے منفرد شاعر تھے،اُن کی یہ غزل کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے؀

شور ہے ہر طرف سحاب سحاب
ساقیا ساقیا! شراب شراب
آب حیواں کو مے سے کیا نسبت
پانی پانی ہے اور شراب شراب
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
اک وہی مست با خبر نکلا
جس کوکہتے تھےسب خراب خراب
مجھ سے وجۂ گناہ جب پوچھی
سر جھکا کے کہا شباب شباب
جام گرنے لگا تو بہکا شیخ
تھامنا تھامنا کتاب کتاب
کب وہ آتا ہے سامنے کشفیؔ
جس کی ہر اک ادا حجاب حجاب