انیس اشفاق کی کتاب “نیر مسعود ہمہ رنگ ہمہ داں کے چند منتخب اقتباسات”

یہ تحریر 1603 مرتبہ دیکھی گئی

نیرمسعود کی موت (۲۴/جولائی ۲۰۱۷ء) سے ایک یا شاید دودن قبل میں ’ادبستان‘ کے اُس کمرے میں جو بہت زمانے سے نیرمسعود کے استعمال میں تھا، معمول سے زیادہ دیر تک بیٹھا۔ بہت دیر تک بیٹھنے کا سبب یہ تھا کہ اُس دن رخصت ہوتے وقت نیرمسعود نے میرا ہاتھ اپنے اُس ہاتھ میں جس میں قوت اب زیادہ نہیں رہ گئی تھی، مضبوطی سے پکڑ لیا۔ جیسے چاہ رہے ہوں میں ابھی اور بیٹھوں۔ میں ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیے دیے واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد جب میں نے دوبارہ چلنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے میرے ہاتھ پر اپنی گرفت اور مضبوط کردی۔ ایسا کئی بار ہوا۔ میں جب بھی کرسی سے اٹھتا اور چاہتا کہ آہستہ سے ہاتھ چھڑا کر اُن سے رخصت لوں، وہ میرا ہاتھ اور مضبوطی سے پکڑ لیتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہتے: ’کچھ دیر اور بیٹھو‘۔ کئی بار ایسا ہونے پر بالآخر میں نے اپنا ہاتھ آہستہ سے چھڑایااور اشاروں سے انہیں یہ بتاکر کہ کل اسی وقت پھر آؤں گا، کمرے سے باہر نکل آیا۔
دوسرے دن جب دن کا دوسرا پہر ختم ہورہا تھا اور دھوپ اپنی تیزی دکھاکر ہلکی پڑچکی تھی، میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ فون نیرمسعود کے چھوٹے بھائی اظہرمسعود کا تھا اور اس سے پہلے کہ میں انہیں سلام کرتا، انہوں نے گلوگیر آواز میں کہا: ”نیربھائی چلے گئے۔“ میں اپنی جگہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ نہیں معلوم میں کتنی دیر یونہی کھڑا رہا۔ میرے جسم کو جنبش اس وقت ہوئی جب گھر کے کسی شخص نے مجھ سے پوچھا:
”کیا ہوا؟“

”نیربھائی نہیں رہے۔“ میں نے کہا اور دل پر لگے ہوئے اس گہرے زخم کی اذیت کو انگیز کرتے ہوئے نیرمسعود کی قیام گاہ کی طرف چل پڑا۔
شہر میں نیرمسعود کی موت کی خبر پھیلتے ہی ان کے عزیزوں اور ملاقاتیوں نے ’ادبستان‘ میں آنا شروع کردیا۔ مغرب کا وقت آتے آتے ’ادبستان‘ سوگواروں سے بھر گیا۔ اِن میں سے کچھ پھوٹ پھوٹ کر رورہے تھے، کچھ کی پلکوں پر آنسو لرز رہے تھے اور کچھ سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ جنازے والا صندوق اس کمرے میں جہاں نیرمسعود نے آخری سانس لی تھی، لاکر رکھا جاچکا تھا۔ تھوڑی دیر میں قریب کی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ نمازیوں نے صفیں آراستہ کیں۔ نماز ہوئی۔ نماز ختم ہوتے ہی نیرمسعود کا مردہ جسم صندوق میں رکھ دیا گیا۔ میں نے دل تھام کر صندوق میں رکھے ہوئے جنازے پر نگاہ کی تو یوں محسوس ہوا جیسے ”طاؤس چمن کی مینا“ کا مصنف اپنے افسانوں کے مکانی اسرار کو ’ادبستان‘ کے درودیوار میں ڈھونڈ رہا ہو۔
روتی پیٹتی آوازوں کے درمیان جنازہ ایک بڑے مجمعے کے ساتھ ’ادبستان‘ سے باہر آیا۔ جنازے کے جلوس میں شامل ہونے سے پہلے میں نے مڑ کر ’ادبستان‘ کی دیواروں پر نگاہ کی تو اُن کا رنگ اُسی چادر کی سیاہی سے مِل رہا تھا جسے جنازے والے صندوق پر چڑھادیا گیا تھا۔
جنازہ نیرمسعود کے مکان سے تھوڑی ہی دور پر واقع منشی فضلِ حسین خاں کی کربلا میں لے آیا گیا اور گہرے ہوتے ہوئے اندھیرے میں نیرمسعود کو اُسی کربلا میں بنی ہوئی اُن کے باپ کی قبر کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔ اسی کربلا میں اُن کی ماں بھی آسودہ خاک ہیں اور یہیں نیرمسعود کے پسندیدہ شاعر یاس یگانہ چنگیزی بھی ابدی نیند سورہے ہیں۔
اتنا بڑا عالم، اتنا بڑا ادیب، اتنا بڑا محقق اور افسانوی شہرت کا حامل ایسا افسانہ نگار لکھنؤ اب شاید ہی پیدا کرسکے۔
o
پڑھنے کا شوق نیرمسعود کو اتنا زیادہ تھا کہ اپنے مکان کی دیوار سے ملے ہوئے گھر میں رہنے والی الطاف فاطمہ (پاکستان کی مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار رفیق حسین کی بھانجی) کے گھر جاکر ان کے ذخیرہء کتب سے کتابیں نکال نکال کر پڑھتے۔ ان کے بقول واشنگٹن ارونگ کی ’الحمرا‘ (مترجم غلام عباس)، امیرحمزہ کا بچوں والا ایڈیشن، لاہور سے نکلنے والا بچوں کا رسالہ ’پھول‘ اور بچوں کی دوسری کتابیں نیرمسعود نے الطاف فاطمہ ہی کے گھر میں بیٹھ کر پڑھی تھیں۔
کتابوں سے اس دیوانہ وار محبت نے اُنہیں اُس وقت بہت دکھ دیا تھا جب الطاف فاطمہ کے پاکستان جاتے وقت (۴۷-۴۸) اُن کے گھر کے سامان کی نیلامی ہورہی تھی۔ اس نیلامی میں کتابوں سے بھری ایک الماری بھی تھی۔ نیرمسعود چاہتے تھے یہ الماری ان کے لیے خرید لی جائے لیکن ان کے والد نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں اپنے جاننے والوں کی کوئی چیز اگر وہ مجبوری سے بیچی جارہی ہو، نہیں خریدتا۔ نیرمسعود بہت روئے، بہت ضد کی لیکن وہ الماری اُن کے لیے نہیں خریدی گئی۔ سامان کی بولی لگانے والوں میں سے کسی نے کتابوں سے بھری وہ الماری چار روپے میں خرید لی اور نیرمسعود دل مسوس کر رہ گئے۔
کتاب خوانی کے اسی شوق کا نتیجہ تھا کہ جب نیرمسعود بیس کی عمر کو پہنچے تو ان کے مطالعے کا میدان بہت وسیع ہوچکا تھا۔
o
نیرمسعود کم بولتے تھے، ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے، آواز کھلی اور کھنکتی ہوئی تھی۔ (ریڈیو اور ٹی. وی کی زبان میں ایسی آواز کو golden voice کہا جاتا ہے)۔ لہجہ نرم، مزاج معتدل، شخصیت شفاف، سخن سادہ اور بے پیچ۔ آنے والے سے پہل بس حال چال پوچھنے کی حد تک کرتے۔ پھر جو کچھ وہ پوچھتا ٹھہر ٹھہر کر بتاتے۔ بتانے میں خودنمائی بالکل نہ ہوتی۔ علمی گفتگو میں کسی پر حاوی ہونے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ مذاکروں اور مباحثوں میں بھی جو کہتے بہ انکسار کہتے۔
ہندوستان کے سب سے بڑے ادبی اعزاز سرسوتی سمّان کے ملنے پر اپنی مختصر تقریر (مشمولہ منتخب مضامین ۲۰۰۹ء، مطبوعہ ’آج‘، کراچی) میں ایک بھی جملہ ایسا نہیں کہا جس میں ان کی فضیلت کا پہلو نکلتا ہو۔
o
آج کا ادبستان
آج ’ادبستان‘ جس عمارت کا نام ہے وہ لکھنؤ میں اشراف کے ایک محلے اشرف آباد میں واقع ایک قبرستان کی زمین پر بنی ہوئی ایک حویلی تھی جسے سیدحامد حسین رضوی نے بنوایا تھا۔ اسی حویلی کے پہلو میں انہوں نے اسی سے ملتی جلتی ایک اور عمارت اپنی سکونت کے لیے بنوائی تھی اور ’ادبستان‘ والی حویلی کو خالی چھوڑ دیا تھا۔ پہلو میں بنوائے ہوئے مکان میں پاکستان جانے سے پہلے تک مشہور ناول نگار الطاف فاطمہ رہتی تھیں۔
انجینئر آغا امیرحسین نے ’ادبستان‘ والی حویلی کو پروفیسر مسعود حسن کے ذوق کے مطابق ازسرِ نو تعمیر کرنا شروع کیا اور عمارت سازی کے فن میں آغا صاحب کی مہارت کی بنا پر دیکھتے دیکھتے یہ اِس علاقے میں رئیسانہ شان والی ایک بڑی عمارت بن گئی اور ادب سے مسعود حسن کے تعلق کی بنا پر اس کا نام ’ادبستان‘ رکھا گیا۔ نیرمسعود نے اپنے مضمون ’ادبستان‘ میں اس کی بنائے تعمیر بھی بتائی ہے اور اس کی تاریخ بھی نیز اس کی تعمیر کے مکمل ہونے تک کے تمام مراحل کا بھی ذکر کیا ہے اور جزئیات کے ساتھ اس کے اندرونی تفصیلات بھی بیان کیے ہیں۔ لیکن ’ادبستان‘ اب ہوبہو ویسا نہیں ہے۔
کسی زمانے میں اس کے بیرونی حصے میں شاگرد پیشہ، موٹر گیراج اور ایک کنواں تھا، وہ اب نہیں ہے۔ سڑک کی طرف والے حصے میں ایک ہرا بھرا باغ تھا جس میں پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے قسم قسم کے درخت تھے، جالیوں پر دوڑتی سدا بہار بیلوں سے ڈھکے ہوئے ’سمرہاؤس‘ میں ایک بڑا حوض تھا اور اس حوض میں نازک سی کشتی تیرتی رہتی تھی، باغ میں مالی کا حجرہ بھی تھا۔ ان سب کے بجائے اب باغ والی اس زمین کے ایک حصے میں سبزیاں اگائی جاتی ہیں اور ایک حصے میں رہائشی فلیٹس بننا شروع ہوگئے ہیں بلکہ بن چکے ہیں۔
مسعودحسن کے زمانے میں ’ادبستان‘ میں سات غسل خانے تھے لیکن اب ان کی تعداد سمٹ گئی ہے اور ان کی صورتیں اور ہیئتیں بھی بدل گئی ہیں۔ ڈرائنگ روم اور مسعودحسن کی رہائش والا کمرہ نیرمسعود کے تصرف میں آگیا تھا اور ڈرائنگ روم میں وکٹوریائی صوفوں، آبنوسی رنگ کی گدّے دار کرسیوں اور ایرانی قالینوں کے بجائے اب سادہ سا ساز و سامان ہے۔ نیرمسعود کی شدید بیماری کے زمانے میں یہ ڈرائنگ روم ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ثمرہ استعمال کرنے لگی تھی۔ ’ادبستان‘ کی ڈیوڑھی، صدر دروازہ اور اوپر کی منزل پر جانے والا باہری زینہ اب بھی اسی طرح ہے۔ ڈرائنگ روم کے باہر والا چبوترہ اور برآمدہ جوں کا توں ہے لیکن اب دونوں ویران پڑے رہتے ہیں۔ اس طرف کے مکینوں میں زیادہ تر شہر سے باہر ہیں۔ صدر دروازے کے بائیں طرف کے حصے میں نیرمسعود کے بڑے بھانجے شاہد مسیح الزماں نے نئی تعمیرات کرالی ہیں اور اس کے منھ پر کے حصے میں بہت سی بطخیں پلی ہوئی ہیں۔ مسعودحسن کے ’دفتر‘ والے کمرے میں ایک ملازم رہنے لگا ہے۔ اوپری منزل میں جہاں کبھی نیرمسعود بھی رہتے تھے اب صرف ان کے چھوٹے بھائی اور ہومیوپیتھی کے مشہور ڈاکٹر انورمسعود رہتے ہیں۔ یہاں بھی بہت کچھ تبدیلی ہوگئی ہے۔ ’ادبستان‘ کے اندر کے بڑے حصے میں نیرمسعود کے سب سے چھوٹے بھائی اور معروف مزاح نگار اظہرمسعود کا خاندان رہتا ہے اور اس کی ایک پٹی میں شاہد مسیح الزماں کی سکونت ہے۔ اندر کے حصے کا بہت کشادہ صحن اب بھی اسی طرح ہے اور اس کے ایک کونے میں آم اور نیم کے درخت ویسے ہی کھڑے ہیں۔ ’ادبستان‘ میں کمرے، دالان، صحنچیاں، کوٹھریاں، گودام اور ڈائننگ ہال اب بھی ویسے کے ویسے ہیں البتہ اُن کا استعمال اب دوسری طرح ہونے لگا ہے۔
مسعودحسن کے مزاج میں ٹھہراؤ اور سکون تھا۔ شاید اسی لیے ’ادبستان‘ کو رک رک کر اور بڑی خاموشی سے بنایا گیا ہوگا اور اسی لیے اس پوری عمارت میں بے آوازی اور آہستہ روی کی سی کیفیت ہے۔ عام مکانوں کے مکینوں کی طرح یہاں آوازیں بہت اونچی نہیں ہوتیں۔ سارے کام کسی طرح کے شور و غل کے بغیر ہوتے رہتے ہیں۔ ’ادبستان‘ میں آپ کسی بھی طرف کے دروازے پر دستک دیں، وہ دروازہ دیر سے کھلتا ہے اور یہ اسی آہستہ روی کی وجہ سے ہے جو یہاں کے رہنے والوں میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ دیر سے دروازہ کھلنے کی شکایت ہر آنے والے کو ہے۔ گھنٹی کا رواج ایک آدھ موقع کو چھوڑ کر یہاں کبھی نہیں رہا۔
باغ کی چہاردیواری سے لے کر اس کے آخری حصے تک ’ادبستان‘ کے بہت کچھ بدل جانے کے باوجود اس کی سرِّی کیفیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس میں داخل ہونے کے بعد آپ کو پہلا احساس یہی ہوگا کہ آپ عام سے مکانوں میں نہیں ہیں۔ میں نے ادبستان کی بالائی منزل بھی دیکھی ہے اور نیچے کا حصہ بھی۔ نیچے کے حصے کا تو ہر کونا گوشہ میرا دیکھا ہوا ہے۔ اب بھی جیسے ہی میں اس کی ڈیوڑھی میں داخل ہوتا ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے دیواریں، ستون اور صحنچیاں ایک دوسرے سے ہمکلام ہوں اور ایک دوسرے کو عہدِ رفتہ کی کوئی جادوئی داستان سنارہے ہوں۔ دالانوں، طاقوں، روشندانوں اور محرابوں کو غور سے دیکھیے تو سب کے سب بہت سی کہانیاں کہتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
انجینئر آغا امیر حسین کے ہاتھ میں جانے کیا کمال تھا کہ انہوں نے ’ادبستان‘ کی ہر اینٹ میں ایک زبان رکھ دی۔ اس زبان کو بولتے ہوئے دیکھنا ہو تو نیرمسعود کے افسانوں کو پڑھیے اور پڑھتے چلے جائیے۔
’ادبستان‘ میں اب بچوں اور بہوؤں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔ پہلے صحن میں مسعود حسن کے پوتے دوڑتے پھرتے تھے، اب ان کے پرپوتے کھیلتے کودتے ہیں۔ اٹھہتّر سال کی عمر میں بھی نیرمسعود کے چھوٹے بھائی اظہرمسعود اس صحن میں اپنے بیٹوں، پوتوں اور نواسوں کے ساتھ بڑے شوق سے کرکٹ اور بیڈمنٹن کھیلتے ہیں۔ ادبستان کا یہ صحن پہلے سے زیادہ آباد ہے۔ کمروں، دالانوں اور صحنچیوں میں پہلے سے زیادہ چہل پہل ہے۔ لیکن اس رونق اور گہماگہمی میں آنکھیں، میں جب بھی ’ادبستان‘ جاتا ہوں، اس شخص کو ڈھونڈتی ہیں جو مسعود حسن کے بعد ایک گھنے درخت کے سائے کی طرح پورے ’ادبستان‘ پر چھایا ہوا تھا۔
o
علالت
نیرمسعود اب روز بہ روز کمزور ہونے لگے تھے۔ اب ان کے جسم پر صرف ہڈیاں رہ گئی تھیں۔ کھانے پینے سے ان کی رغبت ختم ہوگئی تھی۔ ان کی اہلیہ انہیں زبردستی کھلاتی پلاتیں۔ اور پھر وہ وقت آیا کہ وہ پوری طرح بستر سے لگ گئے۔ کمزوری کی وجہ سے ان کی گویائی بھی متاثر ہونے لگی۔ جملے رک رک کر ادا کرتے اور کبھی کبھی تو جملے کوادھورا ہی چھوڑ دیتے۔ پورا جملہ ادا نہ کرپانے کی اذیت ان کے چہرے سے ظاہر ہوجاتی اور اس وقت ان کی بے بسی دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہوتی۔ ان کی اہلیہ پوری تندہی کے ساتھ اُن کی تیمارداری کررہی تھیں۔ دونوں چھوٹے بھائی انورمسعود اور اظہرمسعود ان کا ہر طرح سے خیال رکھ رہے تھے۔ اظہرمسعود ان کی دلجوئی کے لیے دیر دیر تک ان کے پاس بیٹھتے اور ان سے گزرے ہوئے زمانوں کی باتیں کرتے۔ بیماری کی اس بگڑتی ہوئی حالت میں نیرمسعود کو اپنے بچپن کی باتیں بہت یاد آنے لگی تھیں اور جو بات پوری طرح یاد نہ آتی اسے اظہرمسعود یاد دلاتے۔ کبھی کبھی فارسی شعروں کا ایک مصرعہ یا اس کی گرہ ان کے ذہن سے نکل جاتی۔ اس بھولے ہوئے مصرعے اور محو ہوجانے والی گرہ کو اظہر مسعود مکمل کرتے۔
انورمسعود چونکہ ہومیوپیتھی کے ڈاکٹر تھے اس لیے اپنے بھائی کی تکلیف کو کم کرنے والی دوائیں انہیں برابر دیتے رہتے۔ انگریزی دوائیں بھی مسلسل دی جارہی تھیں اور حکیمی نسخوں کو بھی آزمایا جارہا تھا۔ ان سب کے باوجود بستر پر نیرمسعود کی بے آرامی بڑھتی جارہی تھی۔ اب انہیں کسی ایک کروٹ آرام نہ تھا۔ وہ اُف اور اَہ کی دردناک آوازوں کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہتے اور کراہنے کی یہ آوازیں برابر اُن کے منھ سے نکلتی رہتیں۔ اسی بے آرامی کے عالم میں بہت قوی حافظے والے نیرمسعود کی یادداشت کمزور ہونے لگی۔ نسیاں کے اس مرض میں وہ لوگوں کے نام بھولنے لگے۔ ایک دن جب میں ان کے پاس بیٹھا تھا، مجھ سے پوچھنے لگے:
”وہ کیسے ہیں؟“
”کون؟“
”ارے…… (وقفہ)…… ارے وہ جو…… الہ آباد میں رہتے ہیں۔“
”جعفر رضا صاحب؟“
”نہیں بھئی……“
”مہدی جعفر……؟“
”نہیں …… وہ نہیں …… اُف……“
”حیدربھائی؟“ (الہ آباد میں مقیم ایک وکیل شاعر مہدی حیدر زیدی جو نیرمسعود سے اکثر ملنے آتے تھے۔)
”ارے وہ…… جو رسالہ نکالتے تھے۔“
”فاروقی صاحب؟“
”ہاں …… وہ کیسے ہیں؟“
”ٹھیک ہیں ماشاء اللہ۔“
میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ فاروقی کا نام بھول جائیں گے اسی لیے میرا ذہن اس طرف نہیں گیا اور میں دوسرے نام لیتا رہا۔ بھول جانے کا یہ مرض علالت کے آخری دنوں میں ان کے باپ مسعودحسن کو بھی ہوگیا تھا اور اپنے ہی بنوائے ہوئے مکان ’ادبستان‘ کا نقشہ ان کے ذہن سے محو ہوگیا تھا۔
جس دن کوشش کے باوجود انہیں فاروقی کا نام یاد نہیں آیا اس دن میری آنکھیں بھر آئیں۔ بیماری کے بالکل آخری دنوں میں کبھی کبھی مجھے بھی نہ پہچان پاتے۔ ان کے پہچان نہ پانے پر ان کی اہلیہ اُنہیں بتاتیں:
”انیس ہیں۔“ اور تب وہ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے اور لیے رہتے۔ کبھی کبھی کسی پرانے دوست کا نام حافظے میں کہیں سے آنکلتا تو نام لے کر پوچھتے:
”بہت دن سے آئے نہیں۔“
”وہ تو مرچکے ہیں۔“ میں اونچی آواز میں انہیں بتاتا۔
”کب؟“
”کئی سال ہوئے۔“ یہ سن کر وہ آبدیدہ ہوجاتے۔

نیرمسعود کی اتنی طویل علالت ان لوگوں سے بالکل نہ دیکھی جاتی جنہوں نے انہیں ہر وقت مصروف و متحرک دیکھا تھا۔ ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں جو مختلف موضوعات پر ان سے گفتگو کرتا، پڑھنے کے لیے کتابیں مانگتا، پڑھی ہوئی کتابوں پر بات چیت کرتا، اپنا تازہ لکھا ہوا مضمون سناتا، اب ان کے سامنے منھ باندھے بیٹھا رہتا۔ لمبے لمبے وقفوں کے بعد ایک دو جملے بولتا بھی تو آواز کو بہت اونچا کرنا پڑتا کیونکہ گویائی کے ساتھ اب ان کی سماعت بھی جواب دینے لگی تھی۔ اُن کے پرانے دوستوں میں اب فاروقی کے سوا کوئی اور نہیں رہ گیا تھا۔۱؎ وہ یا تو فون پر ان کی اہلیہ سے ان کی خیریت معلوم کرلیتے یا کبھی کبھی آکر ان کی عیادت کرلیتے۔
علالت کے بالکل آخری دنوں میں نیرمسعود ایک ہی رخ پڑے رہتے۔ ان کی بیوی جب دیکھتیں کہ اس رخ سے پڑے رہنے میں انہیں تکلیف ہورہی ہے تو رخ بدل دیتیں۔ اسی شدید تکلیف کے عالم میں 28/جولائی 2017ء کو جمعرات کے روز دن کا دوسرا پہر ختم ہونے سے پہلے انہوں نے آخری سانس لی۔ (انتقال اور تدفین کا حال لکھا جاچکا ہے)۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جس مہینے میں نیرمسعود کے والد کی ولادت (29/جولائی) ہوئی تھی اسی مہینے میں نیرمسعود کا انتقال ہوا۔ انتقال کے تیسرے دن اُسی ’ادبستان‘ میں جہاں نیرمسعود نے ایک بڑے ادیب، ایک بڑے محقق اور ایک بہت بڑے افسانہ نگار کی حیثیت سے شہرت پائی تھی، ان کے تیجے کی مجلس ہوئی۔ اس مجلس میں مشہور عالمِ دین ڈاکٹر مولانا سیدکلب صادق نے نیرمسعود کی پسندیدہ کتاب ’نہج البلاغہ‘ کے مقولوں کی روشنی میں علم کی فضیلت کو اپنی خطابت کا موضوع بنایا۔ اس مجلس کے اکیس دن بعد ۱۸/اگست ۲۰۱۷ء کو جمعے کے روز نمازِ مغربین کے بعد لکھنؤ کے مشہور آغاباقر کے امام باڑے میں، جہاں مرزا محمدرفیع سودا کی آرام گاہ ہے، نیرمسعود کے چالیسویں کی مجلس منعقد ہوئی جسے معروف خطیب علامہ سیدعقیل الغروی نے خطاب کیا اور پورے اردو ادب کا بہ اختصار لیکن بہت بامعنی جائزہ لیتے ہوئے موجودہ عہد میں نیرمسعود کی علمی اور ادبی اہمیت کو نمایاں کیا۔ مجلس سے قبل لکھنؤ کے معروف شعراء نے نیرمسعود کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ شمس الرحمن فاروقی بھی اس مجلس میں شریک ہونے الہ آباد سے آئے تھے، مولانا کے منبر پر بیٹھنے سے قبل انہیں اظہارِ خیال کی زحمت دی گئی۔ توقع تھی کہ ایک بڑے مجمعے کے سامنے وہ اس موقع پر اپنے دوست کی فضیلتوں کے بارے میں ضرور کچھ کہیں گے لیکن مائک کے سامنے آکر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور جو کچھ وہ کہنا چاہتے تھے وہ سیلِ گریہ میں کہیں ’گم‘ ہوگیا۔
مجلس ختم ہونے کے بعد جب مجمع چھٹ گیا اور امام باڑے میں چند منتخب لوگ رہ گئے تو اُنہیں مولانا کلبِ صادق نے جنہوں نے نیرمسعود کے تیجے کی مجلس پڑھی تھی، ان منتخب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”افسوس! لکھنؤ سے علم رخصت ہوگیا۔“
نوٹ: درج بالا اقتباسات نیرمسعود کے علمی کارناموں پر لکھی جانے والی کتاب کے ابتدائی باب (سوانح) سے دیئے گئے ہیں۔