امریکا میں نوےدن

یہ تحریر 733 مرتبہ دیکھی گئی

نواں صفحہ:

یہاں امریکہ میں فرصت کے لمحات کی فراوانی تھی تو غور و فکر کی ارزانی بھی ، ورنہ عام طور پر ایسے لمحات کم ہی میسر آتے ہیں بقول غالب-

جی ڈھونڈتا ہےپھروہی فرصت کہ رات دن

 بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

ایسے لمحات میں خیال کی رو نے زقند لگائی اور مجھےاپنے محبوب اساتذہ کے قرب و جوار میں پہنچا دیا- بس پھر قلم کی موشگافیوں سے گلہائے رنگا رنگ کھلنا شروع ہوگئے-آج یہی گلدستہ حاضر ہے-

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا:

میں پہلی ہی ملاقات میں جس شخص کی محبت کا اسیر ہوگیاتھا وہ میرے باپ جیسے استاد ڈاکٹر عبادت بریلوی ہیں کہ جن کے لئے پہلے ایک ہی جملہ میرے ذہن میں آتا تھا”انسان کےروپ میں فرشتہ” مگرمولانا حالی کا شعر پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ انسان بننا فرشتے سے بھی بڑھ کر ہوتاہے مگر اس کے لئے بہت محنت درکارہوتی ہے-پہلے یہ قصہ سن لیجئےپھر بات آگے بڑھاتے ہیں سن ۱۹۶۹گرمیوں کی چھٹیاں۔میں اوریئنٹل کالج میں سال پنجم کا طالب علم اورسٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری تھا   کالج کا ٹؤرسیر کے لئے مری روانہ ہوا، اساتذہ میں  ڈاکٹر محمد باقر، ڈاکٹرعبادت بریلوی ، ڈاکٹر عبدالشکور احسن ،ڈاکٹر عبیدالللہ خان اور ڈاکٹرتبسم کاشمیری شامل تھے ہم لوگ کشمیر پوائنٹ پر پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل میں قیام پذیر تھے-صبح سویرے سب کہیں نہ کہیں سیر کے لئے نکل جاتےاورشام کو واپسی ہوتی تھی-ایک دن ہم نکلنے کی تیاری کر ہی رہے تھے اوربطور منتظم میں اپنی ذمہ داریاں نباہ رہاتھاکہ اچانک میرےسر میں ٹیسیں اُٹھنے لگیں اور شدید دردبھی – میں نے دوستوں سے معذرت کی اور کمرے میں آرام کے لئےاپنے بستر  پر لیٹ گیا- بس کے چلنےکی آواز سےمعلوم ہواکہ سب روانہ ہوچکے ہیں- میں ابھی لیٹا ہی تھا کہ اچانک دستک ہوئی – میں سمجھا کہ شایدمیراکوئی ساتھی ہوگا لیکن دروازہ جب کھلا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب بہ نفس نفیس تشریف لائے ہیں ، بیگم صاحبہ بھی ساتھ ہیں-بہت  حیران ہوا کہ بس توجا چکی ڈاکٹرصاحب گئےکیوں نہیں ؟ پوچھا تو فرمایامیاں تم کو اکیلا کیسے چھوڑ سکتے تھے کیا ہوگیا ہے تم کو صبح تو تم ٹھیک تھے ڈاکٹر صاحب یا تو میرا پورا نام لیتے یا پھر میاں کہہ کر بلاتے تھے میں نے کہابس سر میں معمولی سا درد ہے- اپنےکمرےمیں گئے اور دوائیوں کا ڈبہ لائے  مجھے کچھ دوائیاں کھلائیں، اوراس دن کا اپناسارا پروگرام  منسوخ کرکے  میری نگہداشت کرتے  رہے مجھے باہر لان میں لا کر لٹا دیاکچھ نرم دھوپ کی تمازت اور بیشتر استادمحترم کی شفقت ایسا گھوڑے بیچ کرسویا کہ جب اُٹھا تو شام کے سائےگہرے ہو رہے تھے- یہ ہے میرےاستاد  ڈاکٹر عبادت کی شخصیت کا ایک عکس -ایسے کتنے ہی عکس میرے حافظے کی زینت ہیں مگریہ کہانی پھر سہی- بس ایک آخری بات یہ کہ میں نے ڈاکٹر صاحب جیساشفیق،انسان دوست،نیک طینت ونیک باطن ،مرنجاں مرنج، دھیمے مزاج اور منکسرالمزاجی کےساتھ خودداری کا حامل شخص نہیں دیکھا- خودداری کا یہ عالم تھا  کہ ریٹائرمنٹ کے بعدکبھی اوریئنٹل کالج کارخ نہیں کیا-کسی شاعر کا یہ مصرعہ پڑھا کرتے تھے -نوکری چھوڑی تو اُتری ہوئی پاپوش ہے پھر- پنشن بھی وہ تا حیات اپنے بینک کے ذریعے وصول کرتے رہے-مجھ سے ایک دفعہ بولے میاں اگر کبھی تم نے کسی ادارےکی سربراہی کی ہوتوریٹائر ہونے کے بعدکبھی اُس طرف کا رخ نہ کرنا ورنہ سب لوگ تمہیں ضرورت مندسمجھ کراورنظروں سےدیکھیں گے اُسی دن سے میں نے ڈاکٹر صاحب کی یہ نصیحت پلے باندھ لی ہے اور آج تک کبھی اُن اداروں کی طرف جھانک کر بھی نہیں دیکھا جہاں کبھی سربراہ رہا ہوں – ڈاکٹر عبادت بریلوی ایک عظیم انسان تھے اور مولانا حالی  کا یہ شعر ڈاکٹرصاحب کی شخصیت کی مکمل عکاسی کرتا ہے؀  

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

-پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ:

ڈاکٹر عبیدالللہ خان – زبان پہ بارخدایا  یہ کس کا نام آیا / کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لئے-ڈاکٹر صاحب میرے لئے صرف استاد نہیں بلکہ اس سے کجھ بڑھ کر  ہی تھے-یہ میرے وہ استاد تھے جنہوں نے محاورہ کے مطابق میرے  اوریئنٹل کالج میں داخلے کے بعد مجھے گود لیا تھا اور اپنے آخر ی دموں تک میری نگہداشت کرتے رہے- عملی زندگی کے ہر موڑ پر انہوں نے میری راہنمائی کی اور کٹھنائیوں میں سہارا دیا- اُن کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا تھا اور تمام مسائل کو چٹکیوں میں حل کر دیتے تھے-اُن کا تعلق اساتذہ کےاس قبیلے سے تھا جنہیں اتالیق کا مقام دیا جاتا ہے،اب ایسے استاد عنقا ہیں -ڈاکٹر خان  بظاہر دنیا داراندر سےکٹر مولوی ،بظاہرسخت گیر اندر سے موم ، اور بظاہر متین ،اندر سے شگفتہ مزاجی کا مجسمہ تھے لئے دئے رہتے مگر اپنوں کی صحبت میں خوب  چہچہاتے تھے- وہ متقی پرہیزگار اور پنج وقتہ نمازی تھے، مجھے تلاش کرکے بلاتے اور اپنی امامت میں ظہر کی نماز کالج کی چھوٹی سی مسجد میں  پڑھواتے تھے وسیع المشرب ایسے کہ اکثر و بیشتر ڈاکٹر ناظر حسن زیدی کو  آگے کر دیتے اور ہم سب ان کی اقتداء میں باجماعت  نماز ادا کرتے – ہمیشہ محرم کی مجالس میں ڈاکٹر ناظر صاحب تو میر انیس کے مرثیے کے اشعار کی شاعرانہ نزاکت پر داد وتحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے اور ڈاکٹر خان زاروقطار  روتے  دیکھے جاتے- اُن کا دسترخوان اتنا وسیع تھا کہ اُن کے اور ڈاکٹر ناظر صاحب کے لائے ہوئے ٹفن سے روزانہ آٹھ سےدس طالب علم دوپہر کا کھانا کھاتے تھے- میں اور ڈاکٹر اختر علی تو مستقل حاضرین میں شامل تھےڈاکٹر خان صاحب پر میں ایک پوری کتاب لکھ سکتا ہوں مگر یہ کہانی پھر سہی- یہاں اُن کی محبتوں کے ایک واقعہ پر بات ختم کرتا ہوں- ہوایوں کہ میرے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے نگران ڈاکٹر عبید الللہ خان صاحب تھےممتحنین میں انڈیا سے پروفیسر جگن ناتھ آزاد اور پاکستان سے ڈاکٹر غلام مصطفئ خان اور   ڈاکٹر ایوب قادری شامل تھےزبانی امتحان کے بعد ہر طالب علم نتیجہ جاننے  کے لئے بے چین ہوتا ہے ، چنانچہ میں بھی تھا، بھاگا بھاگا ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں پہنچا اور پوچھا کیا بنا؟ سب کے سامنے ڈانٹ کر مجھے بھگا دیا – کہا مجھ سے غیر قانونی کام کرواتے ہو-مرتا کیا نہ کرتا، روتا دھوتا گھر چلا گیا اور سو گیا تب میرے والد صاحب حیات تھے انہوں نے  شام کو مجھے سوتے سے اُٹھایا کہ اُٹھو تمہارے استاد دروازے پر کھڑے ہیں اندر نہیں بیٹھ رہے کہ جلدی میں ہیں  جاؤ خود اندر لاؤ-میں ہر بڑا کر اُٹھا باہر بھاگا، دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب دروازے پر کھڑے تھے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا ، کاغذ میرے منہ پر مارا ، بولے یہ لو نوٹیفکیشن بڑے پریشان تھے، مبارک ہو ڈاکٹر بن گئے ہو-میں تو خوشی سے پاگل ہوگیا لاکھ اندر  بلایا مگر ڈاکٹر خان صاحب سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا، وہ جا- یہ ہوتے ہیں اصلی استاد!

پیدا  کہاں  ہیں  ایسے  پراگندہ طبع  لوگ

افسوس تم کو میرؔ سےصحبت نہیں رہی

نرم  دم گفتگو، گرم دم جستجو:

ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے ساتھ میری کئی ایک نسبتیں ہیں -میرےشفیق استاد، میرے مربّی ،میرےدوست ، میرے راہنما-اپنے تعلیمی دور میں مجھے ڈاکٹر صاحب کی رہنمائی میسر نہ ہوتی تو آج میں وہ کچھ نہ ہوتا جوہوں-میری پہلی نوکری بھی ڈاکٹر صاحب کی مرہون منت ہے-ہوا یوں تھا کہ میں امتحان سے فارغ ہوکر ڈاکٹر عبادت صاحب کی نگرانی میں اپنا ایم اے کا مقالہ مکمل کرنے میں مصروف تھا تو دن کا زیادہ تر وقت اوریئنٹل کالج میں یا یونیورسٹی لائبریری میں گزرتا تھا- دوپہر کا کھانا ڈاکٹر عبیدالللہ کے دستر خوان پر،چائے ڈاکٹر تبسم کے کمرے میں-ایک دن تبسم صاحب کے کمرے میں گیا تو بولے”مظفر توں آج کل ویلا پھر ریاایں نوکری کیوں نئیں کر لیندا ؟چار پیسے وی بن جان گے” پھر چٹ  دے کر مجھے پروفیسر منظور احمد کے پاس جانے کو کہا- رجعت پسند قوتوں نے پروفیسر امین مغل، پروفیسرایرک سپریئن اور پروفیسر منظور احمد جیسے فاضل اساتذہ کو اُن دنوں اسلامیہ کالج لاہور سےفارغ کروادیا تھا اوران سب نے مل کرلارنس روڈ پرشاہ حسین کالج کے نام سے  ایک عظیم درسگاہ قائم کر دی تھی میں نے سائیکل پکڑی اور کالج پہنچ گیا منظور صاحب لان میں مینجمنٹ کمیٹی کےساتھ میٹنگ کر رہے تھے جس میں پروفیسر صوفی تبسم اور ڈاکٹر نذیر احمد بھی موجود تھے-بہت سادہ لوگ تھے،انسان دوست اور عزت دینے والے، دور سے مجھے دیکھا تو وہیں بلا لیا میں نے چٹ دی توصوفی صاحب سے جو صدر شعبۂ اردو تھےکہا کہ لوجی آپ کاشعبہ مکمل ہوگیا اور یونس کلرک سے کہا کہ ان کو ابھی تقرر نامہ دے دو – چنانچہ جب واپس تبسم صاحب کے پاس یونیورسٹی آیا تو میں لیکچرر بن چکا تھا-مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ملازمت کےانٹرویو  میں آئندہ بھی میں جہاں جہاں گیا ڈاکٹر تبسم نے میری مکمل رہنمائی کی بلکہ میں نے ملازمت کے اکثر  انٹرویو ڈاکٹر صاحب ہی کے بریف کیس اور ٹائی کے ساتھ دئے ہیں -ڈاکٹر صاحب دھیمے مزاج مگر پختہ نظریات کے حامل مرد حر ہیں-الللہ تعالئ ان کو ہمیشہ سلامت رکھے-علامہ اقبال کی نظم “مسجد قرطبہ “ کا یہ شعر ڈاکٹر صاحب کی نذر؀۔     

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو

رزم ہو یا بزم ہو،پاک دل و پاکباز

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں:

ڈاکٹر سجاد باقر رضوی میرےاساتذ ہ ڈاکٹرتبسم کاشمیری اور مرحوم ڈاکٹر سہیل احمد خان کے استاد تھے بلکہ یہ دونوں تواُن کے بہت ہی چہیتے شاگرد تھےاس طرح وہ  میرے دادا استاد ہوئے مجھے یاد ہے کہ وہ ہمیشہ کلاس میں اور کلاس سے باہر بھی کتاب پڑھنے پر زور دیتے تھے ،اُن کے منہ میں ہمہ وقت پائپ ہوتا تھا، ہاتھ میں کتاب اُن کے پائپ کے  دھویں سے نکلتی خوشبو آج بھی میرے مشام  جاں کو معطر کرتی رہتی ہے وہ  اعلئ پایہ کے شاعرہونے کے ساتھ علم وفضل میں بھی بے مثال تھے مجھ سے بے انتہا محبت کرتے اور میرا بہت خیال رکھتے تھے مگر وہ صاف بات کرتے بھی نہیں چوکتے تھے مجھے یاد ہے کہ جب ایم اےکے امتحان میں   یونیورسٹی میں میری دوسری پوزیشن آئی اورمیں بھاگا بھاگا اُن کو بتانےاُن کے کمرے میں گیا بہت خوش ہوئے بٹھایا اور چائے منگوا کرپلائی پھرجب چلنے لگا تو بولے دیکھو میاں تمہاری دوسری پوزیشن تو آگئی  ہےاب لگے ہاتھ دو چار کتابیں بھی پڑھ ڈالو ہمیشہ طالب علموں کوکتب کی فہرست بناکر دیتے اور پھر پڑھنے کی تاکید بھی کیا کرتے تھے جو طالب علم ان کی بات کو نہ مانتا اسے وہ بھگا دیا کرتے اسی لئے پڑھنےلکھنے والے طالب علموں کا ایک ہجوم ہمیشہ اُن کے کمرے میں ہوتا تھا-اُنکی محبت کے طفیل مجھ جیسے نالائق بھی کبھی کبھی وہاں نظر آ جایا کرتے تھے میں اوریئنٹل کالج یونین کاسیکرٹری منتخب  ہوا تو وہ خوش نہیں تھے اور ہمیشہ  کہتے رہتے کہ یہ یونین بازی تمہارا بیڑہ غرق نہ کر دے تم اب پڑھائی کی طرف دھیان دو اور اپنامستقبل بناؤ تم ذہین ہو بہت آگے جاؤگے-میری پنجاب ٹیکسٹ بک  بورڈ میں بطور ڈائرکٹر تقرری ہوئی تو بہت خوش ہوئے تھے اور اپنے مخصوص انداز میں بولے: واہ میاں کیا بات ہے ، میں یہی کہتا تھا نا۔

ایسے مخلص اورمحبت والےاستاداب  کہاں!                                                                                  مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے ؟؟؟؟؟

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی  دن اور: ڈاکٹر سہیل احمد خان کے بارے میں لکھنے کاارادہ کیا تو عارف کے لئے لکھے گئے غالب کے مرثیے کا یہ مصرعہ نہ معلوم کیوں میرے سامنے آگیا شاید جواں مرگی مماثلت ہو-موت کا وقت  تومقرر ہے مگر کوئی چلتا پھرتا چلا جائے تو قلق توہوتا ہے مگرجانےوالاجینئس ہوتوصدمہ دوچندہوتاہے-ڈاکٹر سہیل احمد خان میرے دوست نما استاد  تھےبلکہ استاد کم دوست زیادہ تھےاُن کے استاد بننے کا قصہ بھی بڑا  دلچسپ ہےخان صاحب ہم سےدو سال آگےتھے اور باقاعدگی سے اُن کا کالج آناجانا تھا بلکہ ابھی ہوسٹل ہی میں اُن کی رہائش تھی تھےوہ شام کو باقاعدگی کے ساتھ شام کو پاک ٹی ہاؤس اور  دن کو یونیورسٹی لائبریری میں بیٹھتے تھے جو اُن  دنوں اولڈگیمپس میں انارکلی بازار کے بالمقابل ہوا کرتی تھی لائبریری کے سامنے ایک وسیع گراؤنڈتھی جس کے گرداگردقدیم سایہ دار درخت تھے یہاں خان صاحب کا ایک پسندیدہ کونا  تھا جہاں بیٹھ کر چائے کا دور چلتا تھا میں بھی اس محفل میں باقاعدہ شامل ہوتا یہاں دلچسپ گپ شپ ہوتی اور بلندآہنگ قہقہے گونجتے تھا خان صاحب ویسے توسنجیدہ رہتے مگر نجی محفل میں خوب چہکتے تھےکبھی کبھی افتخار زیدی ،زمان خان اوررضا حمیدجیسے اُن کے پرانے دوست بھی ان محفلوں نظر آ جاتےتھےایک دن اسی طرح کی محفل لگی تھی کہ عبادت صاحب کے قاصد مہر دین آئےاورخان صاحب صاحب کے کان میں کچھ کہا خان صاحب بغیر کچھ کہے سنےاُٹھ کر چل دئے سب حیران کیاماجرا ہے؟ محفل بہرحال اسی طرح جمی رہی ہمُ سب اُن کے منتظر رہےآدھے یا پونے گھنٹے کے بعدخان صاحب وہاں سے جب واپس ہوئے تو خاصےسنجیدہ نظر آئےاورہم سے پنجابی میں کہاپُتروسدھےہو جاؤ کل توں میں تہاڈی کلاس پڑھانی اے -چنانچہ اب معلوم ہوا کہ ڈاکٹر عبادت نےاُن کولیکچرر کےتقرر کی کی اطلاع دینے کے لئے بلایا تھااوروہ اب ہمارے باقاعدہ استاد بن گئے ہیں وہ استاد تو بن گئے مگرہمارے ساتھ اُن کی شفقتوں اور برتاؤ میں کوئی فرق نہیں آیا ڈاکٹر سہیل احمد خان بہت عمدہ شاعر ، شفیق استاد اور دقیق محقق تھے اور کیوں نہ ہوتے وہ سجاد باقر رضوی کے خاص  شاگرد تھے بلکہ بالکل  اپنے استاد کی طرح کتابی کیڑے تھے-ایک آخری دلچسپ بات-رزلٹ کے بعد میرا ایڈہاک لیکچرر کا انٹرویو تھا، حسب معمول اُن کے پاس رہنمائی لینے گیا-مجھ سے پوچھا انٹرویو کمیٹی کا چئیرمین کون ہوگا میں نے کہا کہ ڈی -پی -آئی کہاکہ حال ہی میں ان کی شاعری کی کتاب آئی ہے، گھول کر پی جاؤ شاعر تو وہ جیسے بھی ہیں اُن کو  اس دور کا سب سے بڑا شاعر قرار دے دینابس کام بن جائےگاچنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں منتخب ہوگیا حالانکہ یونیورسٹی میں میری دوسری پوزیشن تھی فرسٹ آنے والا میرا دوست رہ گیا اور مجھ سے بہت لڑا- یہ تھیں ڈاکٹر سہیل خان کی کرامات! ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور یہاں عارف کی جگہ سہیل کا تصرف کر لیجئے-