افسانے کی حمایت میں

یہ تحریر 2275 مرتبہ دیکھی گئی

(1)

                نومبر کا مہینہ ، شام کا وقت،اور غضب کی دھند۔ یا دھند نہیں کہرا کہیئے۔ بہار میں کہاسا کہتے ہیں، مجھے خیال آیا۔ چلئے کہاسا ہی سہی، لیکن نومبر کی شام میں اتنا کہرا /کہاسا کسی نے دیکھا نہ ایسی دھند دیکھی۔ نہیں، دھند تو ہوسکتی ہے۔ ہلکی گلابی سردی، زمین سے لپٹ کر دھیرے بہتی ہوئی کچھ ٹھنڈی ہوا،چولھوں سے اٹھتا اور فضا میں الجھتا ہوا دھواں، تیز یا سست آتی جاتی گاڑیوں کی اڑائی ہوئی گرد، اور کہیں کہیں، کبھی کبھی، واپس لوٹتے ہوئے ریوڑوں کے قدموں کی دھول، یہ سب مل کر دھند پیدا کر ہی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی تو کار چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر یہ دیہات کہاں ؟یہ تو شہر ہے۔مگر کون سا شہر؟ میں سر شام انجان گڈھ سے سراے میر اں کے لئے نکلا تھا۔ بمشکل پچاس کلو میٹرکا فاصلہ ہوگا۔پچاس کلومیٹر میں کتنے میل ہوتے ہیں؟ میں میل اور سنگ میل کے زمانے کا آدمی ہوں، مینار میل بھی جانتا ہوں، یہ کلومیٹر میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیشہ بھول جاتا ہوں کہ ایک اعشاریہ چھہ کلومیٹر برابرایک میل ہوتا ہے۔ بھلا کون حساب لگا سکتا ہے کہ پچاس کلومیٹر میں کتنے میل ہوتے ہیں؟تیس بتیس میل ہوں گے۔ میل کہہ دینے سے فاصلہ آسان تھوڑی ہوجاتا ہے۔ مگر یہ راستے میں شہر کہاں آٹپکا؟ انجان گڈھ بھی قصباتی، سراے میراں بھی قصباتیخوش نوا مرغ گلستاں رند قصباتی ہے میاںمجھے میر کا مصرع یاد آیا۔ نہیں، لاحول ولا قوة، میرا حافظہ ابھی سے جواب دے رہا ہے ۔ میر نے ”قصباتی“ نہیں ”باغاتی“ کہا ہے۔ تو بھلا ”رند باغات“ کیا ہوا؟ وہ رنگین مزاج لوگ جو باغوں میں گھومتے پھرتے تھے؟

                 نہیں احمق، ”باغات“ در اصل ایک محلہ تھا اصفہان میں۔وہاں کے لوگ بڑے حسین مشہور تھے۔”ان صحبتوں میں آخر“میں اسی مناسبت سے لبیبہ خانم کو اصفہان میں آباد دکھایا گیاہے۔مگر یہ شہر تو اصفہان نہیںیہ میں بار بار شہر کیوں کہہ رہاہوں؟ یہ تو معمولی سی آبادی کا گاﺅں ہونا چاہیئے۔ لیکن ابھی ایک دو میل نہیں نہیں ایک دو یا تین کلومیٹر پہلے ایک بہت بڑے ہوائی اڈے کی روشنیاں نظر آئی تھیں۔ رن وے پرجھلملاتی ، بڑی بڑی روشنیوں سے چشمکیں کرتی ہوئی ٹھنڈی سبزی مائل نیلی روشنیاں، کنٹرول ٹاور سے پرواز کرتی ہوئی طاقتور سرچ لائٹیں، ہوائی اڈے کی چہار دیواری چکا چوندھ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سورجوں کی طر ح تمازت بھرے سوڈیم چراغوں کی آغوش میںمشغولیت سے بھری ہوئی ٹرمنل کی عمارتاجی کہاں کا قصہ لے بیٹھے ہو، ہو گا، کوئی ہوائی اڈا ہی ہو گا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم جہاں سے گذر رہے ہو وہ کوئی شہر ہی ہے۔ گذر رہے ہو؟ کون مسخرا گذر رہا ہے؟ گاڑی بمشکل ہی آگے بڑھ رہی ہے، کہراکہاسا ہی اتنا ہے کہ بس۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ کیا فضول محاورہ ہے۔ ہاتھ میں کون سی آنکھیں لگی ہوئی ہیں کہ دوسرا ہاتھ دکھائی دے۔مگر زبان تمھاری محکوم نہیں، تم زبان کے محکوم ہو۔ اور وہ جو کہتے ہیں کہ زبان تو فلاں استاد کے گھر کی لونڈی ہے؟ ہونہہ، تو ذرا اس لونڈی کی اسی ادا کو ٹھیک کر دیںحکم دے دیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینا غیر منطقی اور غیر سائنسی ہے، اس لئے آج سے یہ محاورہ ہماری لونڈی کی زبان پر نہ آئے نہیں تونہیں تو کیا؟ واجب القتل ہوگی؟زبان کو قتل کردوگے تو پھر تم بولو گے کیا ؟بھوک لگے گی تو روٹی کیسے مانگو گے؟

                مگر گاڑی آگے کیوں نہیں بڑھ رہی ہے؟ ظفر اقبال صاحب بھی عجب مسخرے تھے۔ کہہ گئے گاڑی اتنی نہیں پرانی بھی بات کیا ہے جو کھینچتی نہیں لوڈ۔ یہاں لوڈ کون سا ہے، یہاں تو میں اکیلی جان اکیلی جان چوپایوں کے جنگل میں بھٹکتی ہے خدا جانے کس کا مصرع ہے۔ مگر ہے بڑا ڈراﺅنا۔ اب تو لوگ کاروں اور اسکوٹروں اور موٹر سائیکلوں کے جنگل میں بھٹکتے نہیں، صرف قتل ہوتے ہیں۔ اماں موٹر سائیکل کو ہم لوگ پھٹ پھٹیا کہتے تھے، یا پھٹ پھٹی کہتے تھے۔ کیسے اچھے لفظ تھے۔ موٹر سائیکل کے لئے کئی زبانوں میں ایسے ہی لفظ ہیں۔بعد میںموٹر سائیکل کہنے لگے، چلو اس میں بھی ایک شان تھی۔ مگر اب صرف بائک کہتے ہیں۔ ہم لوگوں کی باتیں چھوٹی کیوں ہوتی جارہی ہیں؟ مگر یہ راستہ تو چھوٹا نہیں، لمبا ہوتا جارہا ہے۔پہلے زمانے میں شہروں کو کنکریٹ جنگل concrete jungleکہتے تھے۔ اب تو چلتا ہوا جنگل rolling jungleکہنا چاہیئے، جیسے ہمارے یہاں ریگ رواں کا استعارہ یا مشاہدہ تھا، ایسے ریگستانوں کے لئے جہاں ریت ہر وقت اڑتی رہے، گویا آگے بڑھتی جا رہی ہو۔ ملا سابق کا کیا عمدہ شعر ہے نفس کے بیاساید از ہرزہ گردی کہ منزل گہے نیست ریگ رواں را۔ یہ ملا سابق تھے کون؟ کوئی ہوں گے، سابق کے معنی ہیں آگے جانے والا۔ وہ تو آگے نکل گئے، یہاں میں مسبوق بلکہ مذبوح ہوا جا رہا ہوں۔ مگر دیکھئے استعارے میں کیا قوت ہے کہ منزل گہے نیست ریگ رواں را کس خوبی سے ہمارے جدید معاشرے پراس کا اطلاق ہوتا ہے۔ سڑکوں پر کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملتی اور جگہ مل بھی جائے تو فرصت کسے۔ موٹریں، بسیں، بائکیں، آٹو رکشے اس طرح بپھرے ہوئے اندھا دھند بھاگتے رہتے ہیں گویا انھیں کہیں رکنا ہی نہ ہو۔

                اندھادھند۔دھند؟یہاں کی د ھند کب ختم ہوگی؟ مجھے رات ڈھلے سراے میراں ضرور پہنچنا ہے۔اچانک سامنے سرخ نیلی روشنیاںنظر آرہی ہیں۔ دو سپاہی ہاتھ اٹھا کر راستہ روک رہے ہیں۔میری جھنجھلاہٹ بڑھتی جارہی ہے لیکن میںگاڑی کو سپاہیوں کے بالکل پاس لا کر روکتا ہوں۔ میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکا ہوں کہ سپاہی بتاتا ہے، آگے راستہ بند ہے صاحب۔ کیوں؟میں چیں بجبیں ہو کر پوچھتا ہوں۔ اچانک باڑھ آجانے کے سبب آگے سڑک کئی گز دھنس گئی ہے اور دو تین سو گز جگہ جگہ سے کٹ گئی ہے۔ مرمت کا کام جاری ہے۔ اس میں تو گھنٹوں لگیں گے۔ مجھے جانے دو جمعدار صاحب بہت ضروری کام ہے۔ راستہ بالکل نہیں ہے جناب۔ لیکن ایک سروس روڈ ہم بنا رہے ہیں، ایک دو گھنٹے میں بن جائے گی۔ اتنی دیر آپ ہمارے گیسٹ ہاﺅس میں ٹھہرئیے، وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا ہے، اسی ہاتھ سے جس میں وہ اے۔کے۔سینتالیس تھامے ہوئے ہے۔لال نیلی روشنی میں پھیلا ہوا ہاتھ اور اس کی توسیع بہت بھیانک معلوم ہورہے ہیں۔

                میں بائیں طرف دیکھتا ہوں۔ ایک دھندلی سی عمارت نظر آتی ہے جس کے پورٹیکو میں زرد کمزور بلب جل رہا ہے۔ سپاہی کا ہاتھ ابھی تک ویسا ہی سخت اور سیدھا اشارہ کررہا ہے۔ گیسٹ ہاﺅس یا جیل خانہ؟ مگر بھلا مجھے کیوں قید کریں گے، میں تو ایک بالکل بے ضرر ادھیڑ عمر کا افسانہ نگار ہوں۔اوراوریہ تو کچھ کسی افسانے کا آغاز معلوم ہوتا ہے۔تو کیا میں، میں نہیں ہوں، کسی افسانے کا کردار ہوں؟افسانے کے کردار اور افسانوی کردار میں کیا فرق ہے؟

                میں اپنی گاڑی پورٹیکو میں لے جانا چاہتا ہوں لیکن ایک اور سپاہی کہیں سے نکل کر آتا ہے اور اشارہ کرتا ہے کہ گاڑی یہیں کھڑی کر دی جائے۔ میں دل ہی دل میں دانت بھینچتاہوں لیکن گاڑی کھڑی کر کے بظاہر نہایت لا پروائی سے کمرے میں داخل ہوجاتا ہوں۔ وہاں کئی لوگ پہلے سے موجود ہیں، لیکن روشنی بہت کم ہے اس لئے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کتنے لوگ ہیں۔کچھ پرانے زمانے کے ریلوے ویٹنگ روم جیسا سماں ہے۔مگر یہ ماجرا کیا ہے کہ فوجیوں نے اچانک پہنچ کر سڑک بنانی شروع کردی۔ یہاں تو ضلع حکام اور پولیس والے ہی کئی دن بعد ایسے موقعوں پر معائنے کے لئے آتے ہیںاور فوج تو تب بلائی جاتی ہے جب معاملہ سول حکام کے قابو کے بالکل باہر ہو گیا ہواور یہ فوجی لوگ اتنے شریف کب سے ہو گئے کہ راہگیروں کے ٹھہرنے اور آرام کا انتظام کریں۔ ورنہ لوگ تو تین تین چار چار دن سڑک پر انتظار کرتے ہیں جب کہیں کسی راحت کی امید پیدا ہوتی ہے۔

                میں سوچ رہا ہوں اس بات پر افسانہ ہو سکتا ہے۔ہوسکتاہے؟ مگر نہیں، یہ افسانہ ابھی تو کچھ کہتا نہیں معلوم ہوتا۔ محض ایک اتفاقی اور بے معنی سا واقعہ ہے ۔نہیں ابھی نہیں، لیکن جب میں اس میں کوئی با معنی انجام داخل کروں تب تو افسانہ بن جائے گا؟اچھا مان لو میں اس میں یہ دکھاﺅں کہ یہ لوگ فوجی نہیں اور نہ سڑک ہی آگے مخدوش ہے۔ یہ لوگ ڈاکو ہیں نہیں ڈاکو اتنی دیر تک انتظار نہیں کرتے، وہ تو لوٹ مار کر جلد از جلد رفوچکر ہوجاتے ہیں۔ اوریہ کچھ خاص دلچسپ بات بھی نہیں کہ ڈاکوﺅں نے کچھ لوگوں کونہیں، ڈاکو ہی کیوں؟ اگر یہ علاقہ انتہا پسندوں کا ہوتاہاں ، انتہا پسند وں نے گھات لگائی تھی، سڑک کے مسافروں کو گولی مگر انتہاپسندوں نے ہم لوگوں کومار بھی دیا تو کیا؟ افسانہ تو پھر بھی نہ بن سکے گا۔ افسانے میں تو ہر واقعے کے، یا کم از کم مرکزی واقعے کے، کچھ معنی ضروری ہیں۔تو کیا یہ معنی کافی نہیں کہ کچھ انتہا پسندوں نے انتہا پسندی بھی تو ایک معنی رکھتی ہے۔لیکن کوئی معنی نہ رکھنا بھی تو معنی کی ایک قسم ہے؟بھلا کافکا کے افسانوں میں معنی ہیں کہ نہیں؟ ہیں،لیکن کیا معنی ہیں ؟

                تو کیا کافکا کے افسانے ہم سے کچھ بھی نہیں کہتے؟پتہ نہیں یہ نقاد بھی عجب شے ہیں۔ اب تک تو یہ کہا جاتا تھا کہ کافکا کے افسانوں میں لگتا ہے کہ بہت کچھ ہورہا ہے اور ایسا ہورہا ہے جو معنی خیز اور اہم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ ٹھیک سے نہیں معلوم ہوتا کہ کون سی بات اہم ہے اور کون سی بات زیب داستاں کے لئےتو کیا افسانے میں کچھ زیب داستاں کے لئے بھی ہو سکتا ہے؟ ہوسکتا ہے کیا معنی، ہوتا ہی ہے۔تو پھر افسانے میں معنیاجی جو زیب داستاں کے لئے ہوتا ہے وہ بھی معنی کی تعمیر میں اپنا حصہ رکھتا ہے۔ بھلا وہ کیسے؟پتہ نہیں، میں تو افسانہ نگار ہوں، گھٹیا ہی قسم کاسہی۔ یہ سب جاننا میرا کام نہیں میرا کام افسانہ لکھنا ہے۔ لیکن کافکابھائی دنیا میں کافکا ہی تو ایک افسانہ نگار ہی نہیں۔مانا کہ اس کے افسانے میں بہت کچھ ہوتا رہتا ہے اور لگتا بھی ہے کہ یہ سب معنویت سے بھرا ہوا ہے۔لیکن معنویت کھلتی نہیں۔ ہم صرف قیاس لگا سکتے ہیں۔ لیکن اب بعض نقاد کہنے لگے ہیں کہ کافکا کے افسانے میں کچھ نہیں ہے۔ صرف اس کی نفسیاتی الجھنیں ہیں۔ ورنہ اسے انسان سے ہمدردی بھی نہیں۔

                انسان سے ہمدردی، یہ ہوئی نہ بات۔لہٰذا افسانے کا اولین کام ہے کہ وہ انسان کے تئیں ہمدرد نظر آئے۔ للیکن کون سے انسان کے تئیں؟ ظالم کے تئیں ہمدردی رکھنا نہیں نہیں انسان سے مطلب ہے عالم انسانی، اور عالم انسانی سے مطلب ہے اس عالم کے وہ فرد جو زندگی میں معنی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔زندگی میں معنی؟ زندگی میں معنی کی بات بعد میں کریں گے۔ ابھی جو واقعہ پیش آرہا ہے اور جس کے ہونے کا چشم دید گواہ میں ہوں، اس میں کوئی معنی، یا کچھ معنی ہیں کہ نہیں؟پتہ نہیں

                بھلا میں معنی کے چکر میں کہاں سے پڑگیا۔ اچھا معنی نہ سہی، کسی افسانے میں کچھ تو ہونا چاہیئے۔ ہاں یہ بات تو پتے کی ہے۔توشیخ صاحب جس شعر کو پڑھ کر ملاقاتی کی سخن فہمی کا امتحان کرتے تھے اس میں کیا ہے؟ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں۔ چھوڑو یا رکہاں کی بات لے بیٹھے۔ افسانے میں کچھ ہوتا ہے، کچھ واقع ہوتا ہے، اور وہ بامعنی ہوتا ہے۔ اس شعر میں تو کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ صرف چار الگ الگ بیانات ہیں نہیں ، ذرا ٹھہرو۔وہ کیا تھا، کتا کھا گیا ڈھول نہ بجاہاں امیر خسرو سے منسوب شعر ہے کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا چلا آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجایہاں بھی تو چار باتیں ہیں نہیں تین باتیں ہیں جو ہو چکی ہیں اور ایک ایسی ہے جو ہونے والی ہے۔ تو شاید ایسا بیان زیادہ معنی خیزہوتا ہے جس میں کچھ ہونے والا ہو؟ارے بھائی کچھ ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ کچھ ہونے کا مطلب بھی تو ہو۔

                تو اس کے معنی ہیں کہ جو کچھ اس وقت مجھ پر گذر رہی ہے چاہے تھوڑی دیر میں یہ فوجی سپاہی مجھے گولیوں کی باڑھ ہی پر کیوں نہ رکھ لیں، اس میں کچھ معنی نہیں؟ معنی یہ ہیں کہ کچھ معنی نہیں؟ لیکن یہ تو سچا واقعہ ہے اور پھر بھی بے معنی ہے۔لہٰذا معنی کا ہونا نہ ہونا سچائی پر منحصر نہیں۔ ارے یہ میں کیا کہہ گیا؟سچائی بے معنی ہے؟احمق انسان(شاید اسی لئے لوگ افسانہ نگاروں کو احمق کہتے ہیں)سچائی کو بے معنی کون کہتا ہے؟ ہاں کوئی سچا واقعہ بے معنی ضرور ہو سکتا ہے۔

                تو کیایہ ہم انسانوں کا المیہ نہیں کہ جو ہم پر گذرتی ہے اس میں کوئی معنی نہیں ہوتے؟ المیہ کتنا اچھا لفظ ہے۔ ایک دن میری نظر ہندی کی ایک کتاب پر پڑی، عنوان کچھ ایسا تھا، فلاں شے کی تراسدی۔ میں تذبذب میں رہا کہ یہ تراسدی کیا بلا ہے؟شایدقدر و قیمت، یا تاریخ، یا روایت کے معنی میں ہندی کا کوئی لفظ ہوگا۔ لیکن کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ Tragedyکی ہندی ”تراسدی“ ہے۔ ارے صاحب زبان میں ”ٹ“ اور ”ڈ“ اور ”ج“ تینوں موجود ہیں اور اول الذکر دونوں تو زبان کی خاص پہچان مانی جاتی ہیں۔ پھر ان کو ترک کرکے یہ ”تراسدی“ چہ بوالعجبی است؟ جیسے بعض اردو والے جوش ایمان سے مغلوب ہو کر ”ٹیلیگراف“ کو ”تلغراف“ اور پروپیگنڈا“ کو ”بروبا غندہ“لکھنے اور بولنے کی سفارش کرتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے ہماری عورتوں نے ایک سے ایک معنی خیز گالیا ں ایجاد کر رکھی تھیں پھر وہی معنی کا چکر۔ مجھے خیال آتا ہے کہ کامیو(Camus)کے ڈرامے ”کیلیگیولا“(Caligula)میں کچھ ایسا ہی جھنجھٹ ہے کہ ایک سراے میں مقیم سارے مسافروں کا قتل ہوجاتاہے ۔اور قتل بالکل بے وجہ ہے۔ باپ رے باپ، رونگٹے کھڑے کردینے والی بات ہے ،ہے نہ۔ اور میرا، بلکہ ہم لوگوں کابھی تو کچھ ایسا ہی معاملہ ہونے جارہاہے؟ اللہ بچائے، لیکن اگر ایساہوا تو کون ہمارا افسانہ لکھے گا اور یقین بھی کس کو آئے گا؟ روز ہی اخبار میں اور ٹی وی پر ایک سے ایک گھناﺅنے ایک سے ایک لرزہ خیز ایک سے ایک دردناک قتل کی وارادات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اور سماج میں سیاست میں، برائیاں ہی برائیاں ہیں۔اور ہمارے افسانہ نگار ان کی روداد بھی اسی ٹی وی رپورٹ یا اخباری کہانی کی طرح بیان کرتے ہیں۔ انھیں افسانہ نگار کون کہتا ہے؟ کم سے کم میں تو نہیں کہتا۔

                افسانے میں کوئی بھی صورت حال اس وقت با معنی ہوتی ہے جب اسے متخیلہ کے رنگوں سے سرشار کیا جائے۔یعنی ہر بات کو تصور کیا جائے کہ یہ یوں ہوئی ہوگی، یا یوں ہو سکتی ہے۔ پھر تصور کی آنکھ سے جو دیکھےں اسے تخیل کی زبان میں بیان کیا جائے۔تخیل کی زبان، یعنی ؟اس وقت گھبراہٹ کے مارے حلق خشک ہوا جا رہا ہے مثالیں کہا ں سے یاد کروں۔ لیکن دیکھو میاں، اسی بات کو لے لو کہ نذیر احمد نے ظاہر دار بیگ کا نقشہ کن لفظوں میں کھینچا ہے۔لاحول ولا، مثال یاد بھی آئی تو ایسے متن سے جو کوئی سواڈیڑھ سو برس پرانا ہے اور ہمارے محمد احسن فاروقی مرحوم تو اسے ناول ہی نہیں مانتے تھے۔

                وہ جو ایک لطیفہ ہے کہ ایک مولوی صاحب کہیں کھانے پر مدعو کئے گئے۔ کھانے میں ابھی ذرا دیر تھی ، لہٰذا صاحب خانہ نے وقت گذاری، یا انتظار کی گھڑیوں کوآسان کرنے کے لئے کہا ، ”مولوی صاحب، وہ یوسف زلیخا ہے نہ۔ مولانا جامی کی مثنوی۔، تو اس کا قصہ ذرا بیان کر دیتے، وقت گذاری ہو جاتی۔“

                مولوی صاحب نے گول گول دیدے پھرائے اور کھنکھار کر فرمایا۔”اجی کچھ نہیں۔ پیرے بود پسرے داشت گم کرد بازیافت۔ کھا نا منگوائیے۔“

                تو میاں افسانہ تو اتنا ہی ہے۔ پھر شاعر یا افسانہ نگار اسے تصور میں لاتا ہے کہ وہ بات کس طرح گذری ہوگی، اس کا رد عمل کیا ممکن تھا، اور کیا رد عمل ہوا ہو گا، وغیرہ۔جامی کی مثنوی میں زلیخا صرف عاشق اور اپنے شوہر کے آگے رسوا ہی نہیں ہوتی، محلات، باغات، کنیزباندیاں اور حکومت سب کچھ چھوڑ کر جوگن بلکہ بھکارن بن جاتی ہے۔ پھر مدتوں بعد حضرت یوسف اسے کہیں مل جاتے ہیں ۔ اس وقت جو سوال جواب ان کے درمیان ہوتے ہیں وہ اس بات کی مثال ہیں کہ تصور کی آنکھ سے دیکھنے اور پھر تخیل کے رنگوں میں بیان کرنے کا کیا مطلب ہے۔ جامی پہلے تو تصور کی آنکھ سے تمام امکانات کو دیکھتے ہیں، پھر ایک امکان منتخب کرتے ہیں(زلیخا کا بھکارن بن جانا)۔پھر وہ تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کی ملاقات یا عدم ملاقات کے امکانات کیا ہیں۔ ان میں سے ایک کو وہ اختیار کرتے ہیں اور پھر تخیل کا رنگ ملا کر دونوں کی ملاقات بیان کرتے ہیں۔

                میں یوں ہی احمقوں کی طرح دروازے میں کھڑا ہوں اورکمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھنے اور پہچاننے کی کوشش کر رہا ہوں اور یہ خیالات بھی میرے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔مجھے اجنبیوں کے درمیان یوں چلے آنے میں بہت تکلف محسوس ہورہا ہے۔ میں طبعاً شرمیلاہوں، لوگوں کی طرف آنکھ بھر کر دیکھتا نہیں۔ میں امید میں ہوں کہ یہاں شاید میرا کوئی شناسا نکل آئے

                یہاں شاید میرا کوئی شناسا نکل آئے۔

                شاید یہاں میرا شناسا کوئی نکل آئے۔

                یہاں شاید کوئی میرا شناسا نکل آئے۔

                شاید کوئی میرا شناسا یہاں نکل آئے۔

                شاید میرا یہاں کوئی شناسا نکل آئے۔

                میرا کوئی شناسا یہاں شاید نکل آئے۔

                کوئی شاید یہاں میرا شناسا نکل آئے۔

                یہاں کوئی شاید میرا شناسا نکل آئے۔

                اس ایک جملے کو کئی کئی طرح سے لکھاجاسکتا ہے۔یہ ہماری زبان کی خوبی ہے، فارسی ، عربی، انگریزی، فرانسیسی، کسی میں یہ بات نہیں۔ایسا جملہ لکھنے کی نوبت آئے تو میں بار بار سوچتا ہوں کہ کون سا پیرایہ سب سے بہتر ہوگا۔ معنی کا تھوڑا تھوڑا سا فرق ہر ایک میں ہے۔ میں متبادل جملوں کوبار بار دل میں دہراتا ہوں، روانی، آہنگ، نشست معنی، ہر طرح سے پرکھتا جانچتا ہوں۔ پھر ایک پیرایہ اختیار کرتا ہوں۔کیااور لکھنے والے بھی اس طرح سوچتے ہیں؟یا کیا افسانہ نگار کے لئے ضروری نہیں کہ وہ زبان کی فطرت اور جملوں کی ماہیئت کے بارے میںاتنا غور کرے،اس قدر غور کرے؟کیا یہ ذمہ داری صرف شاعر کی ہے؟ کیا افسانہ نگار کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ جوں توں کر کے بات بیان کردے؟ ہندی، انگریزی، خلاف محاورہ، بے محاورہ، کیاافسانے میں جو کچھ لکھو سب چلتا ہے؟

                نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ افسانے یعنی فکشن اور شاعری کی شعریات ایک ہے۔جو چیز شاعری میں غلط ہے وہ افسانے میں بھی غلط ہے، بلکہ کچھ زیادہ ہی، کیونکہ افسانے کو عروضی وزن کا سہارا نہیں ہوتا۔تو میں کچھ بےوقوفوں کی طرح دروازے میں کھڑا دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ یہاں شایدمیرا کوئی شناسا نکل آئے۔اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے اور میں چونک کر لڑکھڑاجاتا ہوں۔ کیا یہ لوگ مسافروں کو گولی مار رہے ہیں؟ باہرکون سے مسافر ہیں؟ میں سراسیمہ ا دھر ادھر دیکھتا ہوں وہیں اے کاش مر جاتا سراسیمہ نہ آتا یاں مجھے میر کا مصرع یاد آگیا ۔ اچانک لاﺅڈ اسپیکر پر کچھ فوجی آواز میں اعلان ہوتا ہے: Attention, Everybody.گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ باہر کچھ دور پر سڑک بنانے کے لئے blasting ہو رہی ہے۔ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیئے۔ کوئی خطرہ نہیں۔  بھلا سروس روڈ بننے کے لئے blasting ؟ کیا مطلب؟ میں ابھی اپنے آپ سے یہ سوال کر ہی رہا ہوں کہ باہر کئی بھاری بھاری بوٹوں والوںکے دوڑنے اور کمپاﺅنڈ سے باہر جانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ بلاسٹنگ ہورہی ہے یا کہیں raidہورہا ہے؟ میں گھبرا کر دل میں پوچھتا ہوں۔ لیکن اب تک میری آنکھیں کمرے کی دھندلی روشنی کی عادی ہو چکی ہیں۔حاضرین میں کئی غیر ملکی ہیں، کئی عورتیں ہیں۔ کچھ بچے بھی۔سب کے چہرے پر بے اطمینانی کے آثار ہیں۔ لیکن خوف کے نہیں۔آخر اس سب کے معنی کیا ہیں؟ فرض کردم میں افسانہ لکھ رہا ہوں۔ اور یہی میرا افسانہ ہے۔ تو میں اسے کس طرح انجام تک پہنچا سکوں گا؟لیکن مجھے یہ معلوم تو ہونا چاہیئے کہ میں اس افسانے میں کیا دکھانا چاہتا ہوں۔پریم چند کہتے تھے کہ جب تک کوئی نفسیاتی نکتہ، کوئی سبق آموز واقعہ ذہن میں نہ آئے میں افسانہ لکھتا ہی نہیں۔ لیکن ٹی۔ ایس۔ الیٹ تو کہتا تھا کہ میں نظم کے بارے میں پہلے سے کیسے بتادوں کہ میں کیا کہنا چاہتا تھا؟ نظم مکمل ہوگی جبھی تو معلوم ہوگا کہ میں نے اس میں کہا کیا ہے؟