اشوک کے پھول

یہ تحریر 521 مرتبہ دیکھی گئی

میں نے اشوک کے پھول کو پہلی بار نامور سنگھ کی کتاب’دوسری پرمپرا کی کھوج‘ میں دیکھا۔ اسے محسوس کرنے کے لیے اس کتاب کے ایک باب تہذیب اور جمالیات کو کئی بار پڑھنا ضروری ہے۔ چنانچہ میں یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اشوک کے پھول کو میں نے محسوس بھی کیا ہے۔نامور سنگھ کی اس کتاب میں یہ پھول ہندی کے بڑے ادبیب ہزاری پرساد دویدی کے ایک مضمون سے آیا جس کا عنوان ہے’اشوک کے پھول‘۔ہزاری پرساد دویدی کا تعلق بنارس سے تھا اور وہ شانتی نکیتن میں ٹیگور کے ساتھ قیام کر چکے ہیں۔ ٹیگور کی کتاب ’hundred poems of kabeer‘ دویدی جی کے شانتی نکیتن کے قیام اور ان کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ ہزاری پرساد کی نظر سے ٹیگور کو دیکھنا ایک نئے تجربے سے گزرنا ہے۔ ہزاری پرساد کی تحریروں کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ہندی کی اس روایت کاعلم ہو جائے جو دھیرے دھیرے اردو سے الگ ہوتی جا رہی تھی۔ خود ہزاری پرساد کے یہاں اردو کی لسانی اور تہذیبی روایت کا وہ سراغ نہیں ملتا جس کی ہم ان سے توقع کر سکتے تھے۔ یہ سوال میں نے نامور سنگھ سے کیا تھا کہ بنارس اور اس کے آس پاس کیا کوئی ایسا ادیب و شاعر نہیں تھا جس سے وہ اردو کی ادبی اور تہذیبی روایت سے کچھ رشتہ قائم کر سکتے۔ان کا جواب بہت منطقی اور غیر جذباتی تھا۔کہنے لگے کہ اب ایسا بھی کیاہے کہ اس علاقے میں کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جو اردو زبان وادب سے واقف ہو۔کیاپتہ کہ دویدی جی نے اس روایت سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ہو،لیکن تمہاراسوال اپنی جگہ باقی رہتاہے۔ٹیگور کے سلسلے میں مجھے باربار ہزاری پرساد دویدی کاخیال آیاہے اور کسی موقع پر میں نے کہابھی تھاکہ ٹیگور کارشتہ ہندی زبان سے جو زیادہ گہراہے اس کاایک بڑاسبب ہزار ی پرساد سے ان کی قربت بھی ہے۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ ادھرمجھے ہزاری پرساددویدی کے ناول ”چاروچندر لیکھ“کوپڑھنے کاموقع ملا۔اس میں ایک کردار سیدی مولا ہے۔چاروچندر لیکھ اور کئی چاندتھے سر آسماں میں جو تھوڑی مماثلت ہے اس کا ذکر پھر کبھی کروں گا۔
اشکوک کے پھول کے نام سے ہزاری پرساد دویدی کی پوری کتاب ہے جس میں اور کئی دوسرے مضامین شامل ہیں۔اس کتاب میں ایک دلچسپ مضمون ’ایک کتا اور ایک مینا‘ہے،جس کاتعلق شانتی نکیتن سے ہے۔ہزاری پرساد نے مکان کے نیچے کی منزل میں ٹیگور کی منتقلی کا ذکر کیاہے۔اوپر تک پہنچنے کے لیے لوہے کی سیڑھیاں تھیں۔کتااور میناکس طرح ٹیگور کی تلاش میں پریشان ہوئے اس کو ایک کہانی کی صورت میں ہزاری پرساد نے پیش کیاہے۔اس کتاب میں زیادہ ترمضامین ایسے ہیں جو ہزاری پرساد کی فکری اورذہنی ارضیت کاپتہ دیتے ہیں۔ان سب کے بارے میں کسی اور موقع پر اظہار خیال کیا جائے گا۔اس وقت تو ان کے ایک مضمون اشوک کے پھول کاذکر مقصود ہے جسے نامور سنگھ نے تہذیب اور جمالیات کی علامت کے طور پر پیش کیاہے۔اشکو ک کے پھول کا ذکر اردو شاعری میں نہیں ہے۔ہندی میں بھی دھیرے دھیرے اشوک کے پھول کاذکر کم ہوتاگیا، لیکن ہزاری پرساد نے پہلی مرتبہ اسے تہذیبی علامت کی صورت میں پیش کیا۔دوسری پرمپراکی کھوج بنیادی طور پر ہزاری پرساد کے تصور ادب،تصورتاریخ اور تصورتہذیب سے متعلق ہے۔اس کے انگریزی ترجمے کی اطلاع انگریزی کے پروفیسر ہریش تریویدی صاحب سے ملی۔ان کے شاگرد جو خود بھی انگریزی کے استاد ہیں،انہوں نے اس کاترجمہ کیاہے۔
اشوک کے پھول کم سے کم ہندی جگت میں ایک ڈسکورس بن گیا ہے۔ اب یہ ڈسکورس دوسری زبانوں تک پہنچ گیاہے۔ایساکم ہوتاہے کہ کوئی ایک پھول اس طرح مکالمے کاموضوع بن جائے۔اشوک کے پھول ہندوستان میں کن کن شہروں میں دیکھے جاسکتے ہیں،اس کی تحقیق بھی ضروری ہے۔مجھے ہزاری پرساد دویدی کے ایک شاگرد ڈاکڑوشوناتھ ترپاٹھی نے بتایا کہ علی گڑ ھ میں اشوک کے دو درخت ہیں۔معلوم نہیں کہ کس نے انہیں لگایاہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیویدی جی کے جنم دن پر میں ہر سال اشوک کے درخت کو دیکھنے علی گڑھ جاتاہوں۔اسے استاد اور شاگرد کے علمی اور تہذیبی سلسلے اور سفر کی طاقت کہناچاہیے۔اشوک کے پھول میں ہزاری پرساددویدی نے جو کچھ لکھاہے اس میں مذہبی نقطہ نظر توموجود ہے،مگر اہم بات یہ ہے کہ ایک ادیب پھول کو اپنی نظرسے بھی دیکھتاہے۔کہیں مذہبی نقطہ نظر غالب آجاتاہے تو کہیں اپنی نظر۔مذہبی نقطہ نظراگر ادیب کی اپنی نظربن جائے تواکثر اوقات خود سپردگی کا احساس ہوتاہے اور فکر وخیال کی دنیا کسی مقام پر رکی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ہزاری پرساد نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیاہے اور مسلمانی سلطنت کے عروج کے ساتھ یہ پھول ادب کے سنگھاسن سے چپ چاپ اتار دیاگیا۔وہ لکھتے ہیں کہ
’پھر یکایک مسلمانی سلطنت کی پرتسٹھاکے ساتھ ہی ساتھ یہ منوہر پھول ادب کے سنگھاسن سے چپ چاپ اتار دیاگیا۔نام تو لوگ بعد میں بھی لیتے تھے،پر اسی طرح جس طرح بدھ،وکرمادتیہ کا۔ اشوک کو جوسمان کالی داس سے ملاوہ پہلے نہیں تھا‘
انہوں نے خود بھی لکھا ہے کہ کوئی یہ کیسے کہہ سکتاہے کہ کالی داس سے پہلے بھارت میں کوئی اس پھول کو جانتاہی نہیں تھا۔اشوک کا مذہبی سیاق یہ ہے کہ کندرپ دیوتانے جن پھولو ں کو اپنے ترکش میں جگہ دینے کے لائق سمجھا تھاان میں اشوک ہی ہے۔ لیکن ہزاری پرساد کے جس جملے نے مجھے پہلی مرتبہ اپنی گرفت میں لے لیاتھاوہ یہ ہے ’لیکن پھل دار اشوک کو دیکھ کر میرامن اداس ہو جاتا ہے‘۔

(جاری)