اردو زبان و ادب کی صورت حال

یہ تحریر 2031 مرتبہ دیکھی گئی

                سنہ ۱۹۳۰ کے آس پاس مغربی ممالک، خاص کر انگریزی بولنے والے ممالک میں یہ بات بڑے شد و مد سے کہی جانے لگی تھی کہ اب زمانہ مشینوں، عالمی جنگوں، سرمایہ کاری اور سیاسی جبراور اخلاقی زوال کا ہے اور ایسے زمانے میں شاعری نہیں ہو سکتی۔اب شاعری کا چل چلاؤ ہے۔ لیکن اسی زمانے میں، یعنی ۱۹۳۴ میں انگریز شاعر اور نقاد سیسل ڈے لوئسCecil Day-Lewis)نے A Hope For Poetryکے عنوان سے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی جس کا ماحصل یہ تھا کہ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو شعر کے سوا کسی اور وسیلے سے بیان نہیں ہو سکتیں۔اس نے یہ بھی کہا کہ شاعری ایسی باتوں کو بھی بیان کرتی ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئی (unborn)ہیں۔ یعنی شعر میں ہم اپنے تخیل کو کام میں لاتے ہیں اور اپنے قاری کے بھی تخیل کو متحرک اوربر انگیخت کرتے ہیں۔

                سیسل ڈے لوئس کی بات کچھ نے سنی اور کچھ نے نہ سنی،لیکن یہ بات اب تاریخ کا حصہ ہے کہ انھیںدنوں میں انگریزی شاعری پر ایک نئی بہار کے آثار دکھائی دینے لگے۔ ایک ہی سال بعد مشہور نقاد ایف۔آر۔لیوس (F.R.Leavis)نے، جو کلیم الدین احمد کا استاد رہ چکا تھا، اپنی کتاب New Bearings in English Poetryیعنی ”انگریزی شاعری میں نئی سمتیں“ لکھی ۔اس نے ٹی۔ایس۔الیٹ کو نئے زمانے کی شاعری کا سر براہ قرار دیا اور الیٹ کے بعد کی نسل کے شعرا کو خاص اہمیت دی۔ان شعرا میں سیسل ڈے لوئس بھی شامل تھاجس کی عمر اس وقت چونتیس (۳۴) برس کی تھی۔ڈے لوئس اور اس کے ساتھی شعرا لوئی میکنیسLouis Macneice،اسٹیفن اسپنڈرStephen Spender، اور وسٹن آڈنWystan Audenرفتہ نئے زمانے کے اہم ترین شعرا قرار پانے لگے۔حتیٰ کہ ان کے اثر اور اہمیت سے جل کر جنوبی افریقی انگریزی شاعر جارج بارکر George Barkerنے کہا کہ یہ چاروں در اصل نئے طرز کے چار شاعر نہیں، بلکہ ایک ہی شاعر ہیں اور اس نے ان پر Macspaundayکی پھبتی کسی۔ میک یعنی لوئی میکنیس، ایس پی یعنی اسپنڈر، آن یعنی آڈن، اور ڈے یعنی ڈے لوئس۔جارج بارکر کی پھبتی کا اثر الٹا ہی ہوا، کیوں کہ لوگوں نے مان لیا کہ واقعی یہ چار شاعر آج انگریزی شاعری کے چمن میںسب سے تر و تازہ شاعر ہیں۔

                یہ تفصیل میں نے اس لئے بیان کہ ہم اگر جدید اردو شاعری کو دھیان میں لائیںتو ہمیں فوراً خیال آئے گا کہ گذر چکی ہے یہ فصل بہار ہم پر بھی۔ بلراج کومل، محمد علوی، بمل کرشن اشک، بانی،شفیق فاطمہ شعریٰ،کمار پاشی، عادل منصوری، شہریار،پرکاش فکری،زیب غوری، عرفان صدیقی، مصحف اقبال توصیفی،ندا فاضلی، وہاب دانش،فضیل جعفری، زبیر رضوی، شہاب جعفری،یہ سب شعرا کوئی پچاس ساٹھ برس پہلے تقریباً ایک ساتھ ہماری بزم سخن میں جلوہ گر ہوئے تھے۔بعد میں ان میںاور بھی کئی لوگ شامل ہوئے جن میں غیاث متین ، صدیق مجیبی، اسعد بدایونی، عبد الا حد ساز،جینت پرمار ،شائستہ یوسف،بلقیس ظفیر الحسن، قابل ذکرہیں۔

                بلراج کومل، بمل کرشن اشک،بانی، محمد علوی اور زیب غوری کو چھوڑ کر متذکرہ بالا سب شعرا ۱۹۳۵ کے آس پاس پیدا ہوئے تھے۔اور بلراج کومل کے ساتھی شعرا بھی کچھ زیادہ عمر رسیدہ نہ تھے ،کیونکہ وہ سب ۱۹۲۸کے آس پاس پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح اگر انگریزی کے چار معاصرشعرا کو جارج بارکر نے ایک کر کے Macspaunday بنایا تو ہم بھی اپنے ان سب شاعروں کو ایک ہی جھرمٹ کے تارے قرار دیں تو غلط نہ ہوگا۔

                اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ہم آج کے شعرا پر نظر ڈالیں تو کیا ہمیں کوئی جھرمٹ ایسا نظر آتا ہے جسے ہم پچاس سال پہلے کے مذکورہ بالا شعرا کے مماثل قرار دے سکیں؟کیا آج کوئی ایسا شاعر ہے جسے ہم نئی نسل، یا نئی آواز، یا نئی حسیت کا نمائندہ شاعر کہہ سکیں؟اور زور زبرستی کر کے کوئی شاعر، یا اس کا کوئی پیرو کار،یا مبلغ، کسی کا نام لے بھی لے تو کیا ہم اس بات پر یقین کرسکیں گے کہ اس کا وہی مرتبہ ہے(تقریباً ہی سہی، بالکل برابر نہ سہی) جو مذکورہ بالا شعرا میں کسی ایک کا ہے، یا آج سے پچاس برس پہلے تھا؟کیا آج کے شعرا میں کوئی ایسا ہے جس نے معاصر شاعری کو اس طرح متاثر کیا ہو جس طرح محمدعلوی،یا بمل کرشن اشک، یا بلراج کومل،یا زیب غوری، یا بانی،یاعرفان صدیقی وغیرہ نے کیا؟اگر نہیں، تو آج کے شعرا کون سا کارنامہ انجام دے رہے ہیں؟

                سیسل ڈے لوئس کی کتاب A Hope For Poetry کی پچھترویں سالگرہ (۲۰۰۹) میں ادب کے مبصروں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ کتاب آج بھی معنی خیز ہے؟ اور ڈے لوئس کی چالیسویں برسی (۲۰۱۲) پر یہ سوال اٹھا کہ کیا Macspaunday آج بھی انگریزی شاعری کے لئے اہم ہیں؟ دونوں سوالوں کا جواب ہاں میں تھا۔خاص کر تنقید میں ڈے لوئس کے اس نکتے کی اہمیت اب بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ شاعری ان چیزوں کو بناتی ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئیں،unbornہیں۔یعنی شاعری در اصل قوت متخیلہ کا تفاعل ہے۔اب ذرا سوچ کر بتائیے کہ آج کون سی ایسی تنقیدی کتاب لکھی گئی ہے یا لکھی جارہی ہے جس کو لوگ سنہ ۲۰۸۸ میں بھی یاد رکھیں؟

                اب ذرا افسانے کا ذکر سن لیں اور وہی سوال اٹھائیں جو ہم نے پہلے اٹھایا تھاکہ آج سے پچاس برس پہلے کون سے افسانہ نگاروں نے ادب کی محفل میں اپنی پہچان بنائی؟ ایک کے بعدایک روشن اور روشن تر نام ذہن میں آتے ہیں:بلراج مین را، سریندر پرکاش، شرون کمار ورما، غیاث احمد گدی، عوض سعید، الیاس احمد گدی، اکرام باگ، قدیر زماں، نیر مسعود،شفیع جاوید،انور خان، سلام بن رزاق،انور قمر، اظہار لا سلام،اوران کے فوراً بعد آنے والوں میں مظہر الزماں خان،حسین الحق،ذکیہ مشہدی، بلقیس ظفیر الحسن کا ذکر لازمی ہے۔ان کے بھی فوراً بعد آنے والوں میں تین چار نام یاد رکھنے کے قابل ہیں:سید محمد اشرف، خالد جاوید، صدیق عالم۔ کیا آج کے افسانہ اور ناول لکھنے والوں کی فہرست میں مذکورہ بالا لوگوں جیسا ایک نام بھی ہو گا؟

                اس وقت جو لوگ افسانہ لکھ رہے ہیں (بعض نے ناول بھی لکھے ہیں)،ان میں سے کچھ تو اپنی توصیف خود ہی بیان کر لیتے ہیں، اور کچھ نے اپنے ساتھ ایک دو کو لگا رکھا ہے کہ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو۔لیکن کیا اس وقت لکھنے والوں میں سے دو چار ہی سہی، لیکن ایسے لوگ ہیں جنھوں نے افسانے کی دنیا میںکسی قسم کاا نقلاب بر پا کیا ہو؟ یا انقلاب نہ سہی، انھوں نے افسانے یا ناول کو کوئی نئی سمت دی ہو، یا جن سے نئی سمت ملنے امکان ہو،یا یہ بھی نہ سہی،جنھوں نے کوئی نئی تھرتھری پیدا کی ہو؟افسوس کہ میرا جواب نفی میں ہے۔

                اگر شاعری کی روح تخیل میں ہے تو افسانے کی بھی روح تخیل میں ہے۔کوئی واقعہ کتنا ہی عظیم الشان کیوں نہ ہو، یاکوئی حقیقت کتنی ہی مہتم بالشان کیوں نہ ہو،اگر اسے تخیل کے عمل سے نہ گذارا جائے تو وہ افسانہ نہیں بن سکتی۔صرف واقعہ بیان کر دینے،یا کسی مسئلے کو افسانوی روپ میں بیان کر دینے، یا کسی آفاقی حقیقت کو بھی پلاٹ اور کردار کے سہارے سے زندگی کا حصہ بنالینے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہر چیز کو ہم پہلے خود سوچیں، خود تصور میں لائیں، اسے اپنے زور بیان سے نہیں، بلکہ اپنی قوت ایجادکے سہارے پھر سے بنائیں،تب تو افسانہ بن سکتا ہے۔ کچھ دن ہوئے ایک انگریزی نقاد نے ایسے افسانوں کے لئے Underimaginedکی اصطلاح استعمال کی تھی، کہ کسی واقعے یا حقیقت کو محض ٹی وی، اخبار، یا تاریخ و سوانح کی کسی کتاب سے حاصل کرکے اپنے لفظوں میں بیان کردینے سے افسانہ نہیں بنتا۔لیکن افسوس کہ آج افسانے کے نام پر یہی بیان ہو رہا ہے۔

                اگر ہمارے شاعر اور افسانہ نگار زبان کی درستی اور خوبصورتی پر ذرا بھی دھیان دیں تو ان کی تخلیقی سطح خود بخود اونچی اٹھ سکے گی۔ آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اردو پڑھنے والے تو بہت ہیں لیکن اردو پڑھانے اور سمجھانے والے بہت کم ہیں۔اس پر طرہ ہمارے اردو اخبارات ہیں،کہ ان کی زبان میں انگریزی، ہندی،اور مقامی بولیوں کی ملاوٹ اس قدر ہے کہ اسے اردو کہنا مشکل ہو گیا ہے۔لوگ اخبار کو غیر اہم قرار دیتے ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ نصاب کی کتابوں کو الگ کر لیں تو اخبار سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ اور نصاب کی کتا ب بھی روز نہیں پڑھی جاتی لیکن اخبار روز پڑھا جاتا ہے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ لندن ٹائمز Times اور نیوےارک ٹائمز Timesنے جدید انگریزی کی تشکیل میں بہت ہی بڑا حصہ لیا ہے۔بہت سے انگریزی الفاظ کے املاامریکی انگریزی میں کچھ اور ہیں، انگلستانی انگریزی میں کچھ اور۔اور اس فرق کو رائج کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ نیو یارک ٹائمز کا ہے۔ اب جب اردو والا اپنے اخبار میں روز روز اس طرح کی اردو پڑھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ اسی اردو کو اپنی تحریر اور تقریر میں بھی برتے گا۔ایسی صورت میں شاعری اور افسانہ نگاری کا اللہ ہی حافظ ہو گا۔بعض مثالیں ملاحظہ ہوں:      

                (۱)اس کے پاس ایک صحت مند کڈنی تھی۔(گویا کڈنی نہ تھی کوئی جانور تھا، اور اردو میں کڈنی کے لئے کوئی لفظ ہے نہیں۔ اور اگر کڈنی صحت مند ہو سکتی ہے تو زبان،ناک،کان،سب صحت مند ہو سکتے ہیں۔)    

                (۲) اپنے علاقے میں تھی اس کی بڑی ہنک۔(یہ ایک خبر کی سہ کالمی سرخی ہے۔ہنک کیا ہے، میں واقف نہیں، شاید کوئی بڑی مشین یا کارگا ہ ہوگی۔اور تھی بڑی ہنک کی جگہ بڑی ہنک تھی کہنے میں کیا عیب تھا؟)

                (۳)ورکرز پر پولس کے ذریعہ چلائی گئی گولی۔(یہ بھی ایک خبر کی سرخی ہے۔ ورکرز شاید کوئی خاص چیز ہو گی، کیونکہ اردومیں تو کارکن، مزدور، وغیرہ کہتے ہیں۔پولیس کو پولس کیوں لکھا، معلوم نہیں۔ذریعہ چلائی گئی کے معنی ہوئے کہ کسی اور شخص نے پولیس کو بلا کر گولی چلوائی۔)

                (۴)لگ بھگ ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے (اس جملے کی داد بھلا کون دے سکتا ہے؟)

                (۵)اندھیرا بھی کچھ نحیف سا ہے(یہ مصرع نہیں ہے اندھیر ہے۔)

آپ یقین کیجئے اس طرح کی اردو ہر طرف پڑھنے کو مل رہی ہے۔پھر ایسے میں اردو زبان اور ادب کی صورت حال پرماتم ہی ہوسکتا ہے۔