اختر الایمان کی شاعری

یہ تحریر 1936 مرتبہ دیکھی گئی

(۳)

                جیسا کہ میں اوپر کہا، اب اختر الایمان کے یہاں علامت سے زیادہ اسطور کا رنگ نظر آنے لگا ہے۔اب ان کی نظمیں نئے زمانے کا اسطورہ معلوم ہوتی ہیں۔ان کا کھردرا، بظاہر بے کیف رنگ رائے لکنسٹائن(Roy Lichtenstein)کی مصوری کی یاد دلا تا ہے۔یعنی جس طرح لکٹن سٹائن اخباری کامک (comic)کے سادہ رنگ اور کامک جیسے سادہ،اکہری ڈرائنگ کے طریقے استعمال کر کے اپنی تصویر کو جدید حقیقت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا تھا اور یہ کہتا ہوا نظر آتا تھاکہ جدید زمانے میں حقیقت ہی اتنی ہے کہ ا سے کامک کے سپاٹ،دو سمتی،چپٹے اشخاص اور اشیا کے ذریعہ ظاہر کر سکتے ہیں، اسی طرح اختر الایمان بھی ہمارے زمانے کی سطحی، نقلی متانت اور سچائی سے عاری زندگی کو بیان کرنے کے لئے ایسی زبان اور ایسا لہجہ اختیار کرتے ہیںجو آج کی زندگی کو ہمارے سامنے مجسم کر دیتا ہے۔اور یہ کام انفرادی تشبیہوں،استعاروں اور پیکروں سے زیادہ پوری نظم کے لہجے کے توسط سے عمل میں آتا ہے۔

                مثال کے طور پر، اختر الایمان کی نظم ”خمیر“ میں کوئی ایسی ترکیب نہیں استعمال کی گئی جس سے ظاہر ہوسکے کہ شاعر/متکلم کو اس بات کی پریشانی یا فکر ہے کہ معاصر دنیا کے جھوٹ،نا ہمواری، معاصر لوگوں کی نا معتبری، معاصر نظام حیات کے تضادات وغیرہ کے اظہار کے لئے پیکر،یا استعارہ یا علامت وضع ہو تو کیسے ہو اور کس طرح کی علامت یا استعارہ ہو؟شاعر/متکلم بالکل غیر متفکر، بدن کو ڈھیلا چھوڑے ہوئے، آرام کرسی پر متمکن شخص معلوم ہوتا ہے۔یا پھرخارجی طور پر وہ روزمرہ زندگی جینے میںمشغول ہے لیکن داخلی طور پر دنیا، اور دنیا والوں کے تضادات اور اعمال و نتائج کے بارے میں ذہن کے خود کار عمل کے ذریعہ محاسبے میں مشغول بھی ہے۔وہ کسی کو ملزم نہیں ٹھہراتا،کیونکہ وہ خود بھی اس نظام حیات سے الگ نہیں ہے جو اس کی تنقیدی نظر کے نشانے پر ہے۔اس صورت حال،یا نظام حیات و کائنات کے اس رنگ ڈھنگ کے لئے وہ کسی کو بالخصوص ذمہ دارٹھہرانے ، اور خود کو الگ کرنے کا ریاکارانہ عمل نہیں کرتا۔وہ دوسروں پر شک کرتا ہے تو خود کو بھی معرض سوال میں لاتا ہے۔یہ پوری نظم نقل ہونے کا تقاضا کرتی ہے:

                                                خمیر          

                گلاب کیکر پہ کب اگے گا

                کہ خا ر دونوں میں مشترک ہے

                میں کس طرح سوچنے لگا ہوں

                مجھے رفیقوں پہ کتنا شک ہے

                یہ آدمیت عجیب شے ہے

                سرشت میں کون سا نمک ہے

                کہ آگ،پانی ،ہوا،یہ مٹی

                تو ہر بشر کا ہے تانا بانا

                کہاں غلط ہو گیا مرکب

                نہ ہم ہی سمجھے ،نہ تم نے جانا

                غریب کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں

                ہوا تولد تو شاہزادہ

                بلند مسند کے گھر پیادہ

                ولی کے گھر میں حرام زادہ

                متکلم کا مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے خمیر کے اجزا تو تما م انسانوں میں مشترک ہیںتو پھرتمام انسان ایک جیسے کیوں نہیں؟اور پھر ایسا کیوں ہے کہ اچھے سے برا پیدا ہو تا ہے؟یہ مسئلہ فلسفے میں بھی ہے اور تصوف میں بھی۔مولانا روم نے مثنوی میںاس پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔ہمارے یہاں”اولیا کے گھر شیطان“ مشہور کہاوت ہے جو انسانی زندگی اور سرشت کے تضاد اور تقدیرانسانی کے تضاد کو روشنی میں لاتی ہے۔مولانا ے روم معاملے کو سلجھانے اور اس کی عقلی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری کہاوت ایک نہ سمجھ میں آنے والے معاملے کو روز مرہ کی سطح پر لاکرقابل فہم نہیں تو قابل قبول بنانے کی کوشش کرتی ہے۔اختر الایمان کی نظم نہ تو سمجھانے کی کوشش کر تی ہے اور نہ ہی اس تضاد کو قبول کرنی سفارش کرتی ہے:

                کہاں غلط ہو گیا مرکب

                نہ ہم ہی سمجھے نہ تم نے جانا

                تخلیقی سطح پر اختر الایمان کا کمال یہ ہے کہ وہ تضاد کو اور وسیع کر دیتے ہیں۔اولیا کے گھر پیدا ہونے والے شیطان کے لئے مصیبت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنا تشخص اس تقدس کے ماحول میں کس طرح بر قرار رکھے۔لیکن اگر غریب کے گھر میں رئیس صفت،یا رئیس کے گھر میں مزدور صفت بچہ پید اہو تو دونوں کے لئے یکساں اذیت و صعوبت ہے۔بنیادی مسئلہ صرف جینیاتی حادثے کا نہیں،بلکہ یہ ہے کہ جب دنیا میں اتنی بہت سی چیزیں اصلاً ،اور آغاز ہی سے ایک دوسرے کی مخالف ہیں، اور یہ تخالف یا تباین انسانی صورت حال کا حصہ ہے،تو پھر انسان کے لئے راہ فلاح (یا فرار)کہاں ہے؟

                گلاب کیکر پہ کب اگے گا

                کہ خار دونوں میں مشترک ہے

                اب مسئلہ یہ ہوجاتا ہے کہ ”آدمیت“ کی کیا تعریف ہو؟اور انسان کس چیز پر فخر و مباہات کرے جب وہ فضل ربانی یا Graceسے بھی محروم ہو چکا ہے؟اگر ایسا نہ ہوتا توولی کے گھر میں حرام زادہ تولد نہ ہوتا۔ نظم لفظ ”حرام زادہ“ پر ختم ہوتی ہے۔یہ لفظ بعض طبائع پر گراں گذر سکتا ہے۔لیکن ذرا سا بھی غور کریں تو نظم کی روح اسی لفظ میں ہے۔اس لفظ میں اصل کی کم اصلی،مزاج کا جہل اور کجی، اور خود اس اولاد کے ولد الحرام ہونے کا تصور، یہ سب باتیں یکجا ہیں۔

                کھردرے پن کے ذریعہ اخترالایمان صرف یہ فائدہ نہیں حاصل کرتے کہ وہ پڑھنے یا سننے والے کو متوجہ کر لیتے ہیں اور وہ چونک کر نظم پر از سر نو غور کرنے لگتا ہے۔ان کا کھردرا پن (یا ”نفیس“ تحریر لکھنے سے ان کا انکار) در اصل دو اور باتوں کا اعلان کرتا ہے۔اول تو یہ کہ نظم کو ”سجانے“،اس میں نام نہاد لطافت،”شاعرانہ پن“وغیرہ پیدا کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نظم اس صورت حال کا احاطہ کر سکے جس نے شاعر کو بر انگیخت کیا ہے۔نظم کے ذریعہ فوٹو گرافی ہر گز مطلوب نہیں، لیکن یہ ضرور مطلوب ہے کہ جس اخلاقی یا جذباتی صورت حال کا نظم میں بیان ہے،اس پر لفاظی کے پردے نہ ڈالے جائیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اختر الایمان ہمیں بتانا چاہتے یں کہ ”شاعرانہ/غیر شاعرانہ“ وغیرہ اصطلاحیں بے معنی ہیں۔اگر بعض اسلوب اس لئے ”شاعرانہ“ ٹھہرتے ہیںکہ وہ تجربے اور مشاہدے کے نوکیلے پن کو برداشت نہیں کر سکتے ،یا اس کا تحمل نہیں کر سکتے،توایسے اسالیب کو، بلکہ ایسی شاعری کو ترک ہی کر دینا بہتر ہے۔ہمارے یہاں شاعرانہ/غیر شاعرانہ اسلوب اور طریق کار وغیرہ کی بحث اب زیادہ نہیں اٹھتی۔لیکن اختر الایمان کی نظمیں پھر بھی بعض اوقات اس قدر غیر متوقع طور پرگفتگو اور مکالمے کے قریب آجاتی ہیں کہ پروفیسر قسم کے لوگ جو شاعری نہیں پڑھتے، صرف تنقید پڑھتے ہیں،چکر میں پڑ سکتے ہیںکہ شاعری اور نثر کو کس طرح الگ الگ کیا جائے۔یہ چند مثالیں دیکھئے:

                کمبخت گھڑی نے جان لے لی

                ٹک ٹک سے عذاب میںہے جینا

                جب دیکھو نظر کے سامنے ہے

                احساس زیاں نے چین چھینا

                                                (”گھڑی“)

                زمیں جو سب کا مامن ہے

                یہ گویا ارض ناکس ہے

                اسے قحبہ سمجھ کر لوگ استعمال کرتے ہیں

                کوئی والی نہیں وارث نہیں اس کا

                کوئی مجنوں نہیں عاشق نہیں اس کا

                                                (”ارض ناکس“)

                سیاسی رہنما منبر پہ چڑھ کر

                زبوں حالی کی مانگیں گے معافی

                گلا پھاڑیں گے ہمدردی میں ان کی

                کہیں گے ووٹ دو اللہ شافی

                                                (”توازن“)

                اختر الایمان کہتے ہیں کہ ہمارے تصور شعر کو غزل نے خراب کیا ہے۔ان کا خیال یہ ہے کہ ہماری”شاعری کے ساتھ بڑی مشکل یہ پیش آئی ہے کہ وہ اب تک غزل کی فضا سے نہیں نکلی۔“وہ تقاضا کرتے ہیں کہ ”کوئی صنف سخن ہو، اس میں وسعت کی گنجائش ہونی چاہیئے،اور زبان کا استعمال ایسا ہونا چاہیئے کہ پہلے جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں اضافہ بھی ہو اور زبان اپنے وسیع تر معنوں میں استعمال ہو سکے۔“اختر الایمان کی دوسری بات بالکل صحیح ہے۔لیکن اگر ہمارے یہاں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو متحفظ،محتاط، اور ”شریفانہ“ زبان اور لہجے کو شاعری پر حاوی کرنا، یا حاوی رکھنا چاہتے ہیں، تو اس کا الزام غزل پر نہیں،بلکہ ”تغزل“کے اس جھوٹے تصور پرجاتا ہے جوہمارے یہاں مغربی (یا جدید کارانہ) تصورات کے زیر اثر بیسویں صدی کے شروع میں رائج ہوا تھا۔وہ زمانہ ایسا تھا کہ چہل، ٹھٹھول، ہنسی تو دور رہی ، خود کلامی اور ڈرامائی انداز کو بھی ”تغزل“ کے باہر قرار دیا جانے لگا تھا۔ایک طرف تو یہ تھا کہ

                شعر در اصل ہیں وہی حسرت

                سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

اور دوسری طرف یہ تھا کہ داغ کے حسب ذیل شعر کے ظریفانہ انداز کو ”سفیہانہ“کہہ کر غزل کے باہر بتایا جارہا تھا

                میت پہ میری آ کے دل ان کا دہل گیا

                تعظیم کو جو لاش مری اٹھ کھڑی ہوئی

                ”تغزل“ کی اصطلاح ہم لوگوں نے انگریزی کی دیکھا دیکھی وضع کی۔وہاں اگر کبھی Lyricاور Lyricismکی قدر دریافت ہوئی تھی تو ہم لوگوں نے جواب کے طور پر اپنے یہاں ”غزل“ کو Lyric کا مرادف قرار دے لیا اور Lyricism کے لئے ”تغزل“ کی اصطلاح گھڑ لی۔اور چونکہ ہمارا خیال تھا کہ Lyric میں ہر چیز بڑی میٹھی، شائستہ،اور ”دلی جذبات“ کے اظہار پر مبنی ہوتی ہے، لہٰذا

Lyricism یا ”تغزل“ میں بھی یہی کیفیت ہونی چاہیئے۔