آزادی اور ذہنی تنہائی

یہ تحریر 261 مرتبہ دیکھی گئی

آزادی کا خوف ایک بڑے ذہن کا متقاضی ہے
آزادی دھیرے دھیرے گرفتاری بن جاتی ہے
گرفتاری آزادی کی راہ کو ہموار کرتی ہے
ایک ہی وقت میں ہم آزاد بھی ہوتے ہیں اور گرفتار بھی
ایرخ فرام نے کہا تھا:
“آزادی کوئی مستقل وصف نہیں ہے، جو ہمارے پاس یا تو ہے یا نہیں ہے”
یہی بات احتشام حسین نے کہی تھی
کہ “تنہائی مستقل کوئی کیفیت نہیں ہے”
آزادی اور تنہائی میں کیا رشتہ ہے
تنہائی کا احساس بہت بڑا احساس ہے
جو کبھی اور کہیں تھا
اور اب “ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے”
کیا یہ بات آزادی کے بارے میں کہی جا سکتی ہے؟
ذہنی تنہائی کہاں سے چل کر کہاں پہنچی ہے
آزادی اور آزاد ذہن کو سنبھالنا کتنا مشکل ہے
ذہانت آزادی کا دوسرا نام ہے
ذہانت گرفتاری کے ساتھ کتنی شرمندہ ہوتی ہے
سنا ہے تنہائی ذہانت کو زیادہ روشن کر دیتی ہے
ذہانت کا خوف آزادی کا خوف تو نہیں
علاحدگی کا تنہائی سے کیا رشتہ ہے
تنہائی علاحدگی کو لاتی ہے یا علاحدگی تنہائی کو
ہیگل اور مارکس نے علاحدگی کو کیسی انسانی اور اخلاقی قدر عطا کی
مادہ کتنی بڑی سچائی ہے، اور موجودگی بھی
شئے کا تصور کتنا تصوراتی ہو گیا
شئے سے مزدور کا رشتہ وہی اجنبیت کا ہے
ابھی ذہنی تنہائی بہت دور تھی
احساس کی گرفت سے
علاحدگی اور تنہائی کا نظریہ احساس کی گرفت سے بہت دور جا چکا ہے
ہماری تنہائی نظریے کی زد میں آ کر کتنی منطقی بن گئی ہے
تنہائی کا احساس اور ذہنی تنہائی کے بارے میں
سب سے معتبر رائے
تنہائی اور ذہنی تنہائی کی ہو سکتی ہے
ذہنی تنہائی آزادی کے احساس کے ساتھ
کتنی لمبی مسافت طے کر سکتی ہے

18ستمبر 2023