رات بھر برستی ہیں بوندیوں کی صورت میں آنکھ سے تری یادیں دن کو چھیڑ ...

مزار اقبال کا تخیلاتی نظارہ کیجیے ” ایک طرف شاہی مسجد ہے جو ہماری تاریخ ...

ایک جہنم ہے جس میں جھوٹ پھیلانے والوں کو بنا سزا سنائے ہی دھکیل دیا ...

وہ لقمہ ء حرام کیا سے کیا مجھے بنا گیا کھڑا کیا تھا اک ستون ...

آج جب سبھی اس بات کو کسی نہ کسی حد تک تسلیم کر چکے ہیں ...

ہر بار تم سے مل کر دنیا نئی نئی لگتی ہے جیسے ابھی ابھی بنی ...

گاؤں میں ہر سال ہونے والی گندم کی کاشت نے مجھے سکھایا ہے نصیب کا ...

دنیا یہ پھیرا تو ایسے ہی رہا۔ سو میں کم دلچسپی لیتا ہوں۔ میری دلچسپی ...

تم میرا دل لے سکتی ہو جس میں دریا کی روانی ہے دریا، جس میں ...

اپریل کے دنوں میں اجنبی راستوں پہ یونہی کبھی چلتے چلتے چیری کے درختوں پر ...