رات بھر برستی ہیں
بوندیوں کی صورت میں
آنکھ سے تری یادیں
دن کو چھیڑ دیتی ہیں ساز تیری الفت کا
راز تیرے لہجے کا
پھر سے رات ہوتی ہے
پھر سے یہ برستی ہیں
راز بن کے رہتی ہیں ان کہی صداؤں میں
خامشی سے چلتی ہیں
تیرے گرم لہجے کی گنگنی ہواؤں میں
کچھ کہا نہیں جاتا
کچھ سہا نہیں جاتا
مختصر یہی جاناں
رات بھر برستی ہیں آنکھ سے تری یادیں
رازِ الفت
یہ تحریر 381 مرتبہ دیکھی گئی