اردو نظم اور اس میں کیا نہیں ہونا چائے

یہ تحریر 576 مرتبہ دیکھی گئی

آج جب سبھی اس بات کو کسی نہ کسی حد تک تسلیم کر چکے ہیں (نہ ماننے والوں کے لئے بھی کشن رھتا  ہے  اور ہونا بھی چاہئے کہ یہی آرٹ کی خوبصورتی سو یہاں ہے ) تو ایسے میں نئے لکھنے والوں کو پڑھایا جاتا  ہے عموما کہ کیا لکھنا چاہئے ۔اس بارے میں مکمل تھیسس ثروت حسین کی ایک نظم ہے “ایک نظم میں کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے ” جس میں نہ صرف نظم کے آغاز بلکہ اسکے کنٹینٹ اور اسکی وسعت کے متعلق بھی مکمل آگہی ملتی ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی نظم کے اس دور میں ہر وہ نظم لکھی گئی جس نے نظم کے مختصر  حلقے کو مختصر ترین کرنے میں اپناحصہاداکیاا

اب نظم کیونکہ صرف وہی پڑھتے جن کے لئے نظم میٹر کرتی  یہ صرف انٹرٹینمنت نہیں تو ایسے میں کچھ ایسی باتیں بھی جاننا ضروری جو کسی بھی نظم میں نہیں ہونی چاہئے

نظم کو منہ زور نہیں ہونا چاہئے جو موضوع اور شاعر دونوں کو اپنے ساتھ بہا لے جائے

نظم جذبات کی کھلی صندوق نہیں ہونی چاہیے جس سے فیلنگز دیدے پھاڑ کر ہر وقت جھانکتی رھیں

نظم کسی سائیکاٹرسٹ کا کلینک نہیں ہونا چاہئے جس میں جنسی مریضوں کی ہسٹری بلند آواز میں پڑھی  سنی جائے

نظم ایک میڈیم ہے جس میں وہ تمام الفاظ اور موضوعات برتے جاسکتے جو ایک غزلیہ شعر کی نزاکت کے باعث نظر انداز ہوتے رھے  لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سورج کا  آزار بند ،استنجا کرتی عورتیں اور حمل والی تتلیاں ہی لے آئیں

۔نظم کسی سے بدلے لینے کے لئے نہیں ہوتی نظم اپنی برتری اور خود کو شاعر منوانے کے لئے نہیں ہوتی نظم  کسی انگریزی کے پیرے کی گوگل ٹرانسلیشن نہیں ہو سکتی ۔ نظم میں ایک فضا ہوتی (فضا کی  اگرچہ کوئ ایسی جامع تعریف نہیں لیکن اسکا ہونا ایسے ہی اہم جیسے پھول کے لئے خوشبو اور زیادہ تر نظمیں  اسی فضا کے بغیر ہی ہیں

نظموں کو اصطلاحات کا بوجھ سے بوڑھا نہیں کرنا چاہئے نہ اسے معلومات کاانسائیکلوپیڈیا اسے بس نظم ہونا  چاہیے اس میں ہر وہ چیز ہونی چاہیے ایک نظم جو کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے میں ہونی چاہئے