(2) دریائے زندگی کس قدر تنک آب ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے دوسرا کنارہ نظر ...

(1)   شاہنامۂ فردوسی سے میرا پہلا تعارف لڑکپن میں ہوا۔ میری عمر یہی کوئی ...

O عینِ دریا میں بھی تر ہو نہ سکے خوب ہیں ہم محفلوں محفلوں تنہا ...

O چادرِ ابر میں سورج کو چُھپانے کے لیے وہ پسِ پردہ بھی بیٹھے نظر ...

O لیا ہے خاک میں خود کو مِلا، مِلا نہیں کچھ یہ کارِ زیست عبث ...

O کُچھ اور تو ہم بے ہُنروں سے نہ بن آئی جب زخم لگا، زخم ...

O عافیت کہتی ہے پھر ایک ستمگر کو بلائیں ریگِ ساحل کی طرح اپنے سمندر ...

O نہ کر ستم کی شکایت، اگر زیادہ ہے تُجھی سے ربط بھی اے بے ...

O یہ نہیں ہے کہ اِسی راہ پہ چلنا ہے مجھے اب کسی اور جہت ...

آئینے پر نگاہ بہت، آنکھ نم بہت سر میں سفید بال بہت، دل میں غم ...