غزل

یہ تحریر 1044 مرتبہ دیکھی گئی

O

نہ کر ستم کی شکایت، اگر زیادہ ہے
تُجھی سے ربط بھی اے بے خبر، زیادہ ہے

عدم وجود سے بڑھ کر ہے دشتِ امکاں میں
ستارے کم ہیں، خلا کا سفر زیادہ ہے

صبا، ملے تو مرے باغباں سے کہہ دینا
کہ دستِ شاخ میں بارِ ثمر زیادہ ہے

بہت پرند سدا آشیاں میں قید رہے
اُڑان سے ہوسِ بال و پر زیادہ ہے

ہوا ہے جب سے مرا شوق بے اثر تجھ پر
تبھی سے میری نوا میں اثر زیادہ ہے

اگرچہ کم نہیں کون و مکاں کے نظّارے
مری طلب، مرا ذوقِ نظر زیادہ ہے