غزل

یہ تحریر 1484 مرتبہ دیکھی گئی

O

لیا ہے خاک میں خود کو مِلا، مِلا نہیں کچھ
یہ کارِ زیست عبث ہے یہاں رکھا نہیں کچھ

سُخنوری بھی، فقیری بھی، پادشاہی بھی
سب ایک آگ میں جھونکے گئے بچا نہیں کچھ

یہ گردبادِ حوادث ہے کس کو چھوڑتی ہے
یہ تُند سیلِ زمانہ ہے، دیکھتا نہیں کچھ

زمیں لرز اُٹھے گی، آسمان گر پڑے گا
ہزار طرح کے اندیشے تھے ہُوا نہیں کچھ


نہ گُنبدوں میں صدا ہے نہ آئنوں میں شبیہہ
گئے ہم ایسے کہ اب دُور تک پتا نہیں کچھ

کُچھ ایسے لوگ بھی ہیں تیرے آستانے پر
جو آستانے کے عاشق ہیں مُدّعا نہیں کچھ

جو دل میں رہتا ہے، ہاتھوں نے اُس کی تصویریں
بدل بدل کے بنائیں مگر بنا نہیں کچھ

تمام عُمر خموشی کے بعد حاصلِ عُمر
کہا تو ہم نے، کسی نے مگر سُنا نہیں کچھ