غزل

یہ تحریر 1583 مرتبہ دیکھی گئی

O

چادرِ ابر میں سورج کو چُھپانے کے لیے
وہ پسِ پردہ بھی بیٹھے نظر آنے کے لیے

میں کئی بار خفا ہوکے چمن سے اُٹّھا
پھر کوئی گُل نکل آتا ہے بُلانے کے لیے

دل کچھ ایسا تری مہکار میں ڈوبا ہوا تھا
بوئے گُل آئی مجھے ہاتھ لگانے کے لیے

جانے اِس جلوہ گہِ ہست میں آئے کیوں ہیں
ہم کہ خود اپنے لیے ہیں نہ زمانے کے لیے

اُن کے دل میں ہے بہت دردِ نہاں کی دولت
جن کے سینے پہ نہیں داغ دکھانے کے لیے

اُسے ہر طور مرے دل کو لہو کرنا تھا
موسمِ گُل کو رکھا ایک بہانے کے لیے