غزل

یہ تحریر 1855 مرتبہ دیکھی گئی

O

عینِ دریا میں بھی تر ہو نہ سکے خوب ہیں ہم

محفلوں محفلوں تنہا ہی رہے خوب ہیں ہم

عیب کرتا ہے کوئی، کوئی ہنر کرتا ہے

ایک ہم ہیں کہ نہ اچھّے نہ بُرے خوب ہیں ہم

میں نے چاہا تھا تمھیں، تم بھی مجھے چاہتے تھے

ایک ہی شہر میں رہ کر نہ ملے خوب ہیں ہم

لیے پھرتی ہے ہمیں صرف زمیں کی گردش

ورنہ ہم خود کہیں آئے نہ گئے خوب ہیں ہم

نہ کوئی طوق، نہ زنجیر نہ زنداں نہ رسن

آپ ہی اپنے عناں گیر ہوئے خوب ہیں ہم