شاہنامے کی معیّت میں

یہ تحریر 1455 مرتبہ دیکھی گئی

(2)

دریائے زندگی کس قدر تنک آب ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے دوسرا کنارہ نظر آنے لگتا ہے۔ اب اگست 2020ء میں کہیں آ کر معلوم نہیں کس تقریب سے، پھر شاہنامے کا خیال آیا۔ پہلے مقالاتِ حافظ محمود شیرانی کی چوتھی جلد نکالی گئی جو فردوسی سے متعلق مضامین پر مشتمل ہے۔ ان مضامین سے اندازہ ہوا کہ حافظ صاحب شاہنامے کے متن کا کتنا غیرمعمولی استحضار رکھتے تھے۔ اُن کے زمانے میں شاہنامے کا کوئی مفصّل اشاریہ موجود نہ تھا۔ مگر وہ بڑی سہولت سے بتاتے چلے جاتے ہیں کہ فلاں چیز فردوسی کے فلاں ایک یا ڈیڑھ مصرعے سے ماخوذ ہے یا یہ کہ “آہ” کا لفظ شاہنامے میں کل چار پانچ مقام پر ملتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ فردوسی سے منسوب سلطان محمود غزنوی کی ہجو اور سلطان کی طرف سے انعام میں خسّت وغیرہ کے قصّے پر حافظ صاحب نے محققانہ محاکمہ کیا ہے اور ان روایات اور ہجویہ اشعار کو غیر مستند قرار دیا ہے۔ اسی طرح فردوسی سے منسوب مثنوی یوسف زلیخا کو بھی بعد کے زمانے کی تخلیق بتایا ہے جس کی توثیق جدید تر تحقیقات سے بھی ہوتی ہے۔ یہ مقالات پڑھتے پڑھتے طاق پر دھری ہوئی وہ آٹھ جیبی جلدیں بھی یاد آگئیں جو محمد شفیق صاحب کی عنایات کی یادگار تھیں۔ جھاڑ پونچھ کر پھر کہیں کہیں سے ورق گردانی کی گئی۔

اس بار توجہ اس پہلو پر مرکوز ہو گئی کہ شاہنامے کا کون سا متن کتنا مستند ہے کیونکہ مختلف نسخوں اور اشاعتوں میں فرق ہے۔ اور اشعار کی تعداد اور ترتیب میں بھی اختلاف ہے۔ ساٹھ ہزار اشعار کی روایتی تعداد کو اب محتاط لوگ پچاس ہزار یا پچاس اور پچپن ہزار کے درمیان تصور کرنے لگے ہیں۔ برادرِ عزیز شعیب احمد نے اُن دس اشاعتوں کی نشاندہی کی جو معتبر ترین خیال کی جاتی ہیں۔ ژول مول کا نسخہ جو شفیق صاحب سے ملا تھا، ان میں دوسرے نمبر پر ہے۔ مگر آخر آخر میں ایرانی محقق ڈاکٹر جلال خالقی مطلق کو فلورنس میں ایک قلمی نسخے کا سُراغ ملا جو اگرچہ نامکمل ہے مگر سابقہ تمام معلوم نسخوں سے قدیم تر ہے۔ ڈاکٹر خالقی مطلق آج کل جرمنی کی ہیمبرگ یونیورسٹی میں ایرانیات کے استاد ہیں۔ انھوں نے تیس برس کی محنتِ شاقہ سے شاہنامے کی تدوین نو کا کام انجام دیا جس میں متن کا موازنہ تمام سابقہ اشاعتوں سے کرکے تفصیلی حواشی مہیا کیے گئے ہیں۔ یہ اشاعت جو آٹھ جلدوں پر محیط ہے اب شاہنامے سے متعلق مفصل ترین کام تصور کی جاتی ہے۔

شاہنامے کے متون کے باہمی اختلاف اور کمی بیشی پر نظر ڈالتے ہوئے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ تحقیق بسااوقات مزا کرکرا بھی کرتی ہے۔ فردوسی کے نام پر سال ہا سال سے مانے ہوئے نہایت خوبصورت اشعار تازہ تحقیقات کے نتیجے میں مشکوک سمجھے جانے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر لف و نشر مرتب پر مشتمل وہ اشعار جو فردوسی کی غیرمعمولی قدرتِ کلام کے آئینہ دار ہیں، الحاقی یا نیم الحاقی نظر آنے لگتے ہیں۔

“لف” کا مطلب “لپٹنا” اور “نشر” کا مطلب “پھیلانا” ہے۔ جب شعر کے ایک مصرع میں چند چیزوں کا ذکر کیا جائے اور دوسرے میں انہی چند چیزوں سے متعلق اتنی ہی چیزوں کا ذکر آئے تو پہلے مصرع کو “لف” اور دوسرے کو “نشر” کہیں گے۔ کیوں کہ جو چیزیں پہلے مصرع میں گویا لپٹی ہوئی تھیں دوسرے مصرع میں کھل جاتی ہیں۔ اب اگر “نشر” کی ترتیب بھی وہی ہو جو “لف” کی تھی تو اسے “لف و نشر مرتب” کا نام دیا جاتا ہے مثلاً غالب کا شعر ہے:

آتش و آب و باد و خاک نے لی

وضعِ سوز و نم و رم و آرام

پہلے مصرع میں چار چیزوں کا ذکر ہے اور دوسرے میں اُسی ترتیب سے ان کے متعلقات مذکور ہیں۔ آتش کا تعلق سوز سے ہے آب کا نم سے باد کا رم سے اور خاک کا آرام سے۔ فردوسی کے دو مشہور شعروں میں لف و نشر مرتب کی ایک مثال بے مثال ملتی ہے:

بزورِ نبرد آن یلِ ارجمند

بشمشیر و خنجر بگرز و کمند

بُرید و درید و شکست و ببست

یلاں را سر و سینہ و پا و دست

جنگ کے زور میں اُس عالی مرتبت پہلوان نے

شمشیر و خنجر اور گرز و کمند سے

کاٹ ڈالے، چاک کر ڈالے، توڑ دیے اور باندھ لیے

(مدمقابل) پہلوانوں کے سر اور سینے اور پاؤں اور ہاتھ

یہاں وہ مصرعوں کی بجائے تین مصرعوں میں چار چار چیزوں کا، جو باہم مربوط ہیں، ترتیب وار ذکر ہوا ہے۔ یعنی شمشیر سے کاٹ ڈالے سر، خنجر سے چاک کر ڈالے سینے، گرز سے توڑ دیے پاؤں اور کمند سے باندھ لیے ہاتھ۔

مولانا اصغر علی روحی نے اپنی بلند پایہ تصنیف “دبیرِ عجم” میں بجا طور پر اسے “بہترین لف و نشر” قرار دیا ہے۔

مگر مزا اُس وقت کرکرا ہوا جب ڈاکٹر جلال خالقی کے متن میں یہ شعر ملے ہی نہیں اور ژول مول کے ہاں صرف دوسرا شعر ملا جس سے لف و نشر کا یہ کمال ایک تہائی ضائع ہو جاتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ فردوسی سے منسوب ہر شعر فردوسی کا نہیں۔ تاہم بعض مقامات پر محققین کے موقف کو تسلیم کرنے میں سخت تامل ہوتا ہے۔ مثلاً یہ تحقیق کہ وہ شعر فردوسی کا نہیں جسے سعدی نے بوستان میں فردوسی کا نام لے کر تضمین کیا ہے:

چہ خوش گفت فردوسیِ پاک زاد

کہ رحمت برآں تربتِ پاک باد

“میازار مورے کہ دانہ کش است

کہ جاں دارد و جانِ شیریں خوش است”

فردوسیِ پاک زاد نے کیا خوب کہا ہے

اُس کی قبر پر رحمتوں کا نزول ہو

کہ دانہ کھینچ کر لے جانے والی چیونٹی کو بھی آزار نہ دو

کہ وہ جان رکھتی ہے اور جان سب کو عزیز ہوتی ہے

سعدی کا دیا ہوا یہ حوالہ ہمارے ثقافتی حافظے میں رچ بس چکا ہے۔ میر انیس کا یہ شعر اسی سے متاثر ہے:

چیونٹی بھی ہاتھ اُٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار

اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق، ترے نثار

سعدی کا زمانہ فردوسی سے کم و بیش پونے تین سو سال بعد کا ہے۔ اُن کے دور کی زبانی روایت میں اس شعر کا گفتہ فردوسی ہونا یقینی تھا۔ ورنہ وہ یوں نام لے کر اسے فردوسی کی طرف منسوب نہ کرتے۔ قلمی نسخوں میں بھی یہ روایت محفوظ رہی چنانچہ متنِ ژول مول کی اشاعت جیبی تہران (1345) میں ۔۔۔۔۔۔ جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں ۔۔۔۔۔ جلد اوّل، صفحہ 80 پر یہ شعر نمبر شمار 525 کے تحت عین سعدی کی روایت کے مطابق موجود ہے۔ تاہم ڈاکٹر جلال خالقی مطلق اس روایت کو درست نہیں سمجھتے اور اصل متن یوں بتاتے ہیں:

مکش مور کے را کہ روزی کش است

کہ اُو نیز جاں دارد و جاں خوش است

شاہنامے کے متن کی یہ گتھی کبھی سلجھنے والی نہیں کیوں کہ بقول جلال خالقی: “ایک ہزار سال کے دوران یہ دستاویز ہر این و آن اور بے امانتی کا تباں کا کھلونا بنی رہی ہے۔”

شاہنامے کے اشاریے بھی بن چکے ہیں۔ مثلاً ایرانی ویب سائٹ “گنجور” پر فردوسی کے تحت کوئی بھی لفظ لکھ کر وہ تمام اشعار مع سیاق و سباق دیکھے جا سکتے ہیں جن میں وہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ دبیر سیاقی نے بھی “کشف الابیات شاہنامہ” کے عنوان سے دو جلدوں میں ایک اشاریہ ترتیب دیا ہے۔ لیکن ہر اشاریےکی بنیاد شاہنامے کی کسی مخصوص اشاعت پر ہے۔ چنانچہ متن کے اختلاف اور کمی بیشی کے باعث کسی بھی اشاریے کو حتمی یا کامل تصور نہیں کیا جا سکتا۔

اس بار شاہنامے کا نسبتاً زیادہ حصہ نظر سے گزرا جس سے ایک نیا تاثر پیدا ہوا کہ جستہ جستہ حصے دیکھنے سے شاہنامے کے محاسن زیادہ اُبھر کر سامنے آتے ہیں مگر تسلسل کے ساتھ پڑھنے پر ایک بوجھل تکرار کا احساس ہونے لگتا ہے۔ طرزِ بیان، تراکیب، تمثالوں اور قافیوں میں یکسانیت نظر آنے لگتی ہے۔ ہمارا یہ تاثر ذاتی سطح پر تو ہنوز مزید مطالعے اور تفحص کا محتاج ہے مگر حافظ محمود شیرانی صاحب کا محاکمہ، جو شاہنامے میں پیرے ہوئے تھے، اس کی تائید کرتا ہے۔ فرماتے ہیں:

“شاہ نامہء عظیم کا مصنف، فردوسی، ہمارا خیال تھا کہ ادائے مطالب میں غیر محدود الفاظ، گوناگوں بندش اور ترکیب کے ذخیرے کا مالک ہوگا اور جس طرح اور جس پہلو چاہتا ہوگا اپنا مطلب ادا کر دیتا ہوگا۔ اس بارے میں وہ ہم کو بالکل مایوس کرتا ہے۔ جب کوئی خیال شاہ نامے کے دوران میں اُس کو کئی مقام پر ادا کرنا ہوتا ہے تو وہ اس کے اظہار میں زیادہ تنوع، رنگارنگی اور اختلاف سے کام نہیں لیتا بلکہ قریب قریب اُن ہی الفاظ میں اس کو دہراتا ہے جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ خیالات کی تکرار کے ساتھ ساتھ الفاظ اور جملوں کی تکرار شاہ نامے میں اکثر مقامات پر مشاہدہ کی جاتی ہے۔”

تاہم ایک ہزار سال کی قدامت، جب زبان اور تراکیب ابھی اُس چُستی اور گوناگوئی تک نہیں پہنچی تھیں جو شعرائے مابعد کے حصے میں آئی، فردوسی کے دفاع میں پیش کی جا سکتی ہے۔ یوں بھی اتنی طویل اور مسلسل نظم میں تکرار سے محفوظ رہنا آسان نہیں۔