غزل

یہ تحریر 1157 مرتبہ دیکھی گئی

O

عافیت کہتی ہے پھر ایک ستمگر کو بلائیں
ریگِ ساحل کی طرح اپنے سمندر کو بلائیں

جو نظر بھی نہیں آتا اُسے دل میں رکھ لیں
وہ جو باہر بھی نہیں ہے، اُسے اندر کو بلائیں

خارزاروں کا سفر ہے تو پریشانی کیا
آنکھ کو بند کریں اور گُلِ تر کو بلائیں

ہے جو اک عُمر سے سِمٹا ہوا پس منظر میں
پیش منظر کے لیے پھر اُسی منظر کو بلائیں


پھر اُفق کو ہے وہی چاند سا چہرہ مطلوب
اور ہوائیں بھی اُسی زُلفِ مُعنبر کو بلائیں

راستے بھٹکے ہوے قدموں کو آوازیں دیں
سیپیاں موج میں گُھلتے ہوے گوہر کو بلائیں